Maktaba Wahhabi

113 - 194
پڑھنا۔ پس اس سے معنی میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ دوسری صورت کی مثال: ﴿وَلاَ الضَّالِّین﴾ لفظ ضا کو دال پڑھنا ’’ ولاالدالین‘‘ تو اس حرف میں غلطی معنی میں خلل پیدا کر دے گی کیونکہ ’’الدالین ‘‘ دلالت سے اور ’’الضالین ‘‘ ضلال سے ہے۔ اسی طرح حاء کو ھاء پڑھنا جیسے ’’ الحمد للّٰہ‘‘ حمد کو ’’الھمد‘‘ پڑھنے سے یہ کلمہ الھمدسے مشتق ہو گاجس کے معنی سکون ،موت اور بخیل وقحط سالی کے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَتَرَی الْأَرْضَ ہَامِدَۃً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَیہََا الْمَائَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ﴾ (الحج: 5) ’’آپ زمین کو خشک دیکھتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ اس پر پانی برساتا ہے تو وہ لہلہانے لگتی ہے۔‘‘ اسی طرح حرف کی غلطی بھی جلی ہے چاہے معنی میں خلل نہ آئے جیسے ’’ اللذین ‘‘ ’’ھٰذا‘‘ ’’ ھٰذان‘‘ وغیرہ میں ذال کو زا پڑھنا ۔ پس لحن جلی پر یہ دونوں صورتیں مخارج الحروف اورصفات حروف میں عدم تحقیق کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور یہی دو باب تجوید کے اہم ترین مطالب ہیں۔ انہی میں جہالت کی بناپر اکثر و بیشتر لحن جلی پیدا ہوتی ہے البتہ لحن خفی ایسی غلطی ہوتی ہے جو الفاظ پر یوں طاری ہوتی ہے کہ عرف میں اس کو خلل سمجھا جاتا ہے تاہم اس کو صرف اہل فن ہی جانتے ہیں یہ عام ہے ان میں سے بعض غلطیوں کو ہر ایک سمجھ لیتا ہے جیسے راکا تکرار ، لام کو موٹا کرنے ، ادغام و اخفا کو چھوڑ دینا، مشدد حرف کو نرمی سے پڑھنا ، مخفف کو مشدد پڑھنا، مد والے حرف میں قصر اور قصر والے میں مد کرنا وغیرہ اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو صرف ماہرین و محققین ہی سمجھ سکتے ہیں جیسے حروف کی ادائیگی میں بلاسبب دیر لگانا اور ایک جیسی جگہوں پر مقدار میں برابری کرنا ۔ امام جزری رحمہ اللہ کے قول کے مطابق واللفظ فی نظیرہ کمثلہ [1]
Flag Counter