Maktaba Wahhabi

100 - 194
…… وجہ الدلیل راوی حدیث معاویہ بن قرہ کا یہ کہنا ہے: اگر میں چاہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرا ت کی طرح پڑھوں تو میں ایسا کر سکتا ہوں ۔ [1] بخاری کی ہی روایت میں ہے: اگر مجھے لوگوں کے جمع ہونے کا ڈرنہ ہوتا تو میں ایسے ہی پڑھ کے سناتا جیسے عبداللہ بن مغفل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح پڑھ کے سنایا ۔ [2] اور ابو عبید کے ہاں یہ الفاظ ہیں: اگر لوگوں کے جمع ہونے کا ڈر نہ ہوتا ، تو میں آواز یا لہجہ وہی اختیار کرتا۔[3] تو ثابت یہ ہوا کہ صحابی رسول عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے آواز یا لہجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کی نقل کی ہے اور تابعی معاویہ بن قرہ رحمہ اللہ بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔ دوسری دلیل: صحیح بخاری میں سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں ایسی قراءت کی ترغیب ہے جو دلوں کو نرم کرنے والی ہو۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فضیلت کی ترغیب دیتے تو آپ اس کو پہلے کرنے والے ہوتے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن مجید پڑھتے تو خود بھی روتے اور دوسروں کو بھی رُلاتے اسی طرح صحابہ کرام آپ کیے لہجہ میں ہی قرآن پڑھتے بیشک تخرین ( افسروگی ) لہجہ کی ایک قسم ہے اور ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک سورۃ کی یوں قراءت کی گویاوہ مردہ پہ رونے کے مشابہہ غمزدہ حالت میں ہوں۔[4] کیا ہر قاری کے لیے یہ مشروع نہیں کہ وہ لہجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرے ؟ کیاہم پہ لازم ہے کہ ہم ایسی نصوص ذکر کریں جسمیں صحابہ کرام آپ کے لب و لہجہ کی نقل کرتے کیا اس کے لیے اتنا ہی کافی نہیں کہ اقتدا و متابعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ صحابہ ویسے ہی بہت حریص تھے۔ لہٰذا ہر شاگرد کے لیے جائز ہے کہ وہ ادا ، آواز اور لہجہ میں اپنے شیخ کی نقل اتارے کیا ہم سب معلم اول اور اپنے امام و آقا کی ہر مسئلہ میں پیروی نہیں کرتے ؟
Flag Counter