Maktaba Wahhabi

147 - 194
شخص تو علم دیے جانے کے قابل ہی نہ تھا جو اس کو نفع پہچاتا کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے علماء کی شان بیان کر تے ہوتے فرمایا اور جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے… اور پھر دو آیتیں پڑھیں۔[1] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ مجھے قرآن سناؤتومیں نے کہا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو کیسے سناؤں جبکہ آپ پہ ہی تونازل ہوتا ہے ؟آپ نے فرمایامیں دوسروں سے اس کی تلاوت سننا پسند کرتا ہوں پھر میں نے آپ کو سورۃ النساء کی تلاوت سنائی جب میں اس آیت کریمہ پر پہنچا: ﴿فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَـؤُلاء شَہِیْداً﴾ (النساء: 41) ’ ’پس کیا ہو گا جب ہم ہر اُ مت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بناکر لائیں گئے۔‘‘ توآپ نے فرمایا’’ تیرے لیے اتنا ہی کا فی ہے ‘‘میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔[2] ابن بطال رحمہ اللہ [3] فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پہ اس لیے رو تے کہ آپ اپنے آپ کو روز قیامت کی شدت میں گواہی دینے والا اوراس موقف پہ شفاعت کرنیوالا محسوس کرتے توایسے موقع پر زیادہ رونا ہی حق رکھتاہے۔[4] حافظ ابن حجر، فتح الباری میں فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنی امت پہ شفقت کی غرض سے روتے کیونکہ آپ کو علم تھا کہ آپ ان کے علم وعمل پہ
Flag Counter