Maktaba Wahhabi

139 - 194
میں۔ مدینہ میں۔ لوگوں کو تریسٹھ رکعات اور تین وتر پڑھتے پایا ہے۔[1] امام مالک کہتے ہیں: یہ مسئلہ ہمارے ہاں بہت قدیم ہے۔[2] امام شافعی کہتے ہیں: میں نے مدینہ کے لوگوں کو انتالیس اور مکہ کے لوگوں کو تئیس رکعات پڑھتے دیکھا ہے اور اس میں کوئی تنگی والا مسئلہ نہیں۔[3] سلف صالحین کا رکعات کی تعداد میں کثرت کی طرف رجوع لوگوں پہ تخفیف کی غرض سے تھاکیونکہ رکعات کی کم تعداد قیام کے لمبا ہونے کا تقاضا کرتی ہیں اور لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے ان میں سے کچھ کمزور اور حاجت مند ہوتے ہیں ، ذرا اس مسئلہ پر غور کریں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیام اللیل کا سوال ہوا باوجود اس کے کہ آپ نے گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھیں، جواب ایسا دیا جو تخفیف کا تقاضا کرتا ہے اور وہ ہے دو دو رکعات کے ساتھ زیادہ رکعتیں پڑھنا ، فرمایا’’ رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں،جب تم میں سے کوئی صبح کا خوف محسوس کرے تو اسے چاہیے ایک رکعت ادا کر لے یہ اس کی بقیہ نماز کو وتر بنادے گی۔‘‘[4] لہٰذا یہی لوگوں کے حالات کے زیادہ مناسب ہے اور خاص لوگوں کے لیے وہ عمل زیادہ مناسب ہے( یعنی گیارہ رکعات ) جب اکیلا ہو ۔[5]
Flag Counter