Maktaba Wahhabi

86 - 677
اجازت دے دی، وہ بھی اندر تشریف لے گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد ان کی سب بیویاں بیٹھی ہیں اور آپ ان کے درمیان بالکل خاموش نظریں جما کر بیٹھے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں رفقائے خاص سے فرمایا: تم دونوں دیکھ رہے ہو؟انھوں نے مجھے گھیرا ڈال رکھا ہے۔ یہ مجھ سے خرچ مانگتی ہیں ۔ یہ سن کر سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اُٹھے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو گردن سے پکڑ لیا۔[1] اور عمر رضی اللہ عنہ اُٹھے اور اپنی بیٹی سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو گردن سے پکڑ لیا۔ وہ دونوں کہہ رہے تھے کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیزیں مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ؟ ان سب نے بیک زبان عہد کیا کہ اللہ کی قسم! ہم کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز نہیں مانگیں گی جو آپ کے پاس نہ ہو گی۔‘‘ [2] گویا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسے مبارک خاندان اور صدق و ایمان سے لبریز لمحات میں آنکھ کھولی اور دین اسلام کی تعلیمات سے جھلمل جھلمل کرتے ماحول میں پرورش پائی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے بچپن میں ہی ان ہولناک مراحل کا مشاہدہ کیا جن کا سامنا دعوتِ اسلام کو کرنا پڑا اور جو دُکھ درد اور ظلم و ستم مسلمانوں نے سہے۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان واقعات سے ہمیں کچھ بتائے ہیں جو ان کے والد محترم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دین و ایمان کی راہ میں پیش آئے۔ وہ بیان کرتی ہیں : ’’یہاں تک کہ وہ سر زمین مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے مجبور ہو گئے۔ ان کی چاہت تھی کہ وہ وہاں رکنے والے اپنے مسلمان بھائیوں سے جا ملیں ۔جب وہ’’برک الغماد‘‘[3] نامی مقام پر پہنچے تو انھیں ابن دغنہ ملا جو قارہ نامی قبیلہ کا سردار تھا۔ اس نے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مکہ واپس آنے پر آمادہ کر لیا۔ قریش کی تکالیف سے آپ کو پناہ مہیا کی۔ اس نے جو الفاظ آپ کی شان میں کہے ان میں سے کچھ یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔ اس نے کہا: اے ابوبکر! تجھ سا کوئی آدمی نہ اپنی سرزمین سے ازخود نکلتا ہے اور نہ نکالا جاتا ہے۔ بلاشبہ آپ بدحال کے لیے کماتے ہیں اور صلہ رحمی کرتے ہیں ، مصیبت زدہ کا سہارا بنتے ہیں ، مہمان نواز ہیں ، حق کے رستے میں آنے والی مشکلات میں مدد کرتے ہیں ، پس میں آپ کو اپنی پناہ
Flag Counter