Maktaba Wahhabi

87 - 677
میں لیتا ہوں ۔ آپ واپس آجائیں اور اپنی سر زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہیں ۔‘‘ [1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہجرتِ مدینہ تک اپنے والد محترم کے گھر پرورش پاتی رہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یارِ غار صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ہجرتِ مدینہ کی اور آپ اپنے اہل و عیال مکہ مکرمہ میں ہی چھوڑ آئے تھے۔ جب مدینہ طیبہ کے شب و روز معمول کے مطابق ہو گئے اور حالات پرسکون ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اہل وعیال کو مدینہ منورہ بلا لیا۔ انھوں نے مکہ مکرمہ میں یہ دن نہایت عسرت کے ساتھ گزارے۔سیّدہ اسماء بنت ابی بکر رضی ا للہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرتِ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال و متاع جو پانچ یا چھ ہزار درہم کی مالیت کے برابر تھا ، اپنے ساتھ لے لیا۔ سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ’’ہمارے پاس میرے دادا جان ابو قحافہ آئے، جب کہ ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی۔ وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! میرے گمان کے مطابق ابوبکر نے اپنی ذات سمیت اپنے مال کو بھی تم سے چھین لیا ہے۔ میں نے کہا: اے ابا جان! ہر گز ایسا نہیں ۔ وہ ہمارے لیے بھی بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں ۔ چنانچہ میں نے کچھ پتھر لیے اور اپنے گھر یا دیوار کے اس ’’طاق ‘‘[2] میں رکھ دیے جہاں میرے والد محترم اپنا مال و دولت رکھتے تھے۔ پھر میں نے اس پر کپڑا ڈال دیا، پھر دادا کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے آئی اور کہا: اے ابا جان! اس مال پر اپنا ہاتھ رکھیں ۔ انھوں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ دیااور کہا کہ مال تمہاری گزران کے لیے کافی ہے۔اگر وہ تمہارے لیے اتنا کچھ چھوڑ گئے ہیں تو یہ بہت ہی اچھا ہے۔ اس سے تمہاری گزر بسر بخوبی ہو جائے گی۔ سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اللہ کی قسم! میرے والد محترم نے ہمارے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا لیکن میں نے چاہا کہ میں اپنے بوڑھے دادا جان کو کسی طریقے سے مطمئن کر دوں ۔‘‘ [3]
Flag Counter