Maktaba Wahhabi

531 - 677
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو آپ نے سیاہ بالوں کی ایک دھاری دار چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حسن بن علی رضی ا للہ عنہما آئے تو آپ نے انھیں اپنی چادر کے اندر کر لیا۔ پھر حسین رضی اللہ عنہ آئے تو انھیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کے اندر کر لیا۔ پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں تو انھیں بھی آپ نے چادر میں داخل کر لیا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ آئے تو انھیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کے اندر کر لیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴾ (الاحزاب: ۳۳) ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے ، خوب پاک کرنا۔ ‘‘ اس آیت کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ہی خطاب کیا گیا ہے اور وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں پہلے سے شامل ہیں اور اس حدیث سے پتا چلا کہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان چاروں کو اہل بیت سے مخصوص کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ صرف یہی چاروں ہی اہل بیت ہیں اور دوسرے قرابت دار اہل بیت نہیں بلکہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ یہ چاروں افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین اور محبوب ترین ہیں ۔ اس آیت کی مثال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ کی آل میں داخل ہیں اور سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گزشتہ روایت کہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں شامل ہیں اس کی مثال اللہ عزوجل کا یہ فرمان ہے: ﴿ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ﴾ (التوبۃ: ۱۰۸) ’’یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی۔‘‘ اس فرمان الٰہی میں مراد مسجد قباء ہے اور صحیح مسلم کی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے[1] کہ اس سے مراد جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔ اس قسم کی مثالیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پیش کی ہیں ۔ [2]
Flag Counter