Maktaba Wahhabi

58 - 69
علی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم کی وجہ سے جہنم کی وعید کے مستحق ہوگئے ہیں۔ اعاذنا اللّٰه منہ۔ موصوف قیامت تک صحیح بخاری سے یہ الفاظ نہیں دکھا سکتے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ بلکہ صحیح بخاری میں تو اس مسئلہ پر باب قائم کیا گیا ہے کہ حائضہ بعد از طلاق عدت طلاق گزارے گی یا دوسرے لفظوں میں وہ اس طلاق کو شمار کریگی ۔ اور پھر اس کے تحت جو قصہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہوا ہے، اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کورجوع کرنے کا حکم دیا جو، از خود اس کے واقع ہونے کی دلیل ہے۔ نوٹ: (ہم نے یہاں اس بات سے صرف نظر کیا ہے کہ ہمارا نقطہ نظر اس سلسلے میں کیا ہے) نیز اس سلسلے میں (تفہیم کیلئے) صحیح بخاری میں باب مراجعة الحائض کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔ نکاح اور طلاق پر جناب نے جو دو گواہوں کو لازمی شرط قرار دے دیا ہے یہ بھی تقول علی الله ہے نعوذ بالله من ذلک۔ کیونکہ نہ یہ شرط ہے نہ فرض و واجب، یہ اسی طرح مستحب و مندوب ہی کہلائے گا جس طرح کہ بیع کے وقت حکم ہے واشھدوا اذا تبایعتم۔ اب ظاہر ہے یہ واجبی حکم نہیں ہے اور اس کی تائید جناب کی عملی زندگی بھی کرتی ہے۔ نکاح میں گواہوں کا ہونا موقوف روایتوں سے ثابت ہے مرفوع نہیں ۔ ( دیکھئے ارواء الغلیل و سنن ابی داوٴد وغیرہ)۔ جناب کی پیش کردہ آیت میں گواہوں کی گواہی کے موقع و محل میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ (دیکھئے فتح القدیر اور زاد المسیر)۔ اس لئے جناب نہ تو تفسیر بالرائے سے گواہوں کا شرط ہونا اور واجب ہونا ثابت کرسکتے ہیں اور نہ ہی گواہی کا موقعہ و محل ۔ہاں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی قول ہے اور یہ بھی۔ نیز صحیح ابوداوٴد طبع دارالسلام میں حدیث رقم ۲۱۸۶ میں یہ واقعہ بیان ہواہے کہ سید نا عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور پھر اس سے مباشرت کرلیتاہے مگر طلاق دینے یا اس سے رجوع کرنے پر گواہ نہیں بناتا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ا س نے خلاف سنت طلاق دی اور خلاف سنت ہی رجوع کیا۔ بیوی کو طلاق دیتے وقت گواہ بناوٴ اور رجوع کے وقت بھی اورپھر آئندہ ایسا نہ کرنا۔
Flag Counter