Maktaba Wahhabi

59 - 69
اس موقوف روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق اور رجوع میں گواہ بنا لینا مستحب ہے اور افضل ہے۔ بالخصوص جب رجوع زبانی ہو۔ کیونکہ رجوع بالفعل میں گواہ کے کوئی معنی نہیں الایہ کہ اذالم تستحی فاصنع ماشئت کا مصداق بن جائے۔ فافھم و تدبر۔ لہٰذا شوہر کا اکیلے میں تنہائی میں طلاق دے دینا کوئی حکم عدولی نہیں، بلکہ اس کا اپنے حق کو استعمال کرنا ہے جس کا وہ خود ہی حق دار ہے۔ ہم جناب کو مشورہ دیں گے کہ کچھ اپنا بھی خیال کریں کہ ہماری نگاہ میں تو آپ بھی ایک مرد ہی ہیں۔ واللہ اعلم۔ آخر میں جو مسئلہ ایلاء پر جناب نے لب کشائی کی ہے، تو اس سلسلے میں تو یہ بات واضح ہو گئی کہ کم از کم چار ماہ تک شوہر کو مہلت مل سکتی ہے۔ جس کے جناب بھی قائل ہیں مگر کیا اس سے مرد کی فوقیت ثابت نہیں ہوتی؟ اختیار ثابت نہیں ہوتا؟ جسے ختم کرنے کیلئے جناب نے خود کوتباہی کے دہانے پرپہنچادیاہے۔ مگر یاد رہے حافظ صاحب نے یہ جو لکھا ہے (اور قرآن سے ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے) کہ اس کے بعد یقینی طور پر طلاق دینی ہوگی یہ اللہ کے پاک کلام میں کہیں بھی نہیں بلکہ پہلے فاء وا کا ذکر ہے یعنی وہ رجوع کا اختیار رکھتے ہیں چاہیں تو رجوع کرلیں۔ اور امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے تمام اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے کہ فاء وا سے مراد اپنی عورت سے جماع و ہم بستری کرنا مراد ہے الایہ کہ کوئی عذر ہو۔ (فتح القدیر از شوکانی)۔ لہٰذا جناب کا خود ساختہ قرآن بنا کر یہ کہنا کہ چار ماہ بعد یقینی طور پر طلاق دینی ہوگی۔ صراحة تحریف قرآن ہے۔ اور اس طرح جناب نے اپنے موجودہ اکابر و اصاغر کے منہج کو پھر سے زندہ کر دیا ہے کہ وہ تحریف کے عادی ہیں۔ (دیکھئے قرآن و حدیث میں تحریف از ابو جابر)۔ باقی رہی عورتوں کی فضیلت کی بات تو ہر مسلمان ہی قرآن و سنت میں وارد فضیلت کو تسلیم کرتا ہے۔ البتہ جناب کی حرکت یہ ہے کہ وہ عورتوں کی حمایت میں احادیث لکھ دیتے ہیں مگر اپنی (یعنی مرد کی) حمایت میں آنے والی احادیث کو مسیحی اور ہندو روایت کہہ کر رد کردیتے ہیں۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے مفتاح الجنہ میں لکھا ہے کہ جس نے بھی محدثین کے ثابت شدہ اصولوں پر ثابت شدہ ایک حدیث کو بھی رد کیا، وہ کفر میں داخل ہوگیا اور اس کا حشرو نشر یہود و نصاریٰ
Flag Counter