Maktaba Wahhabi

53 - 69
تھا(تواس صورت میں کیا حکم ہے) انہوں نے فرمایا اس عورت کے لئے پورا مہر ہے، اس پر عدت لازم ہے اور یہ وراثت کی بھی حق دار ہے۔ (تب) معقل بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (ایسے ہی) سنا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بروع بنت واشق کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا۔ (ابو داوٴد حدیث رقم ۲۱۱۴ تا ۲۱۱۷ طبع دارالسلام)۔ معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نکاح کے وقت فوراً حق مہر ادا کیا جائے بلکہ قرآن و سنت سے اس کے بالکل برعکس ہی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا جناب کا بعد میں مہر کی ادائیگی کو قرآن و سنت کے حکم کی عدولی قرار دینا، از خود قرآن و سنت کی حکم عدولی ہے اور اہل السنہ پر اتہام و بہتان ہے کہ (نعوذباللہ) اس طرح کے رشتہ حرام و ناجائز ہیں۔ اعاذنا اللّٰه من ھذہ الھفوات ہم کہہ سکتے ہیں کہ: سب سے بڑھ گئی ہے بے حیائی آپ کی (مسئلہ بالا کی مکمل تفصیل فتح القدیر ، صحیح ابوداوٴد اور فتاویٰ اہلحدیث میں دیکھی جا سکتی ہے) تنبیہ: شبہ: مہر انتہائی کم اور شبہ: ولدیت سے لاتعلقی کے ضمن میں کوئی خاطر خواہ بات نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اسے فی الحال موقوف کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ واللّٰه ولی التوفیق شبہ نوکرانی: لکھتے ہیں اس شبہ میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت نوکرانی ہے، تبھی جب شادی کرکے لاتے ہیں تو درحقیقت مقصد ایک نوکرانی لانا ہوتا ہے۔ جو نہ صرف شوہر کی خدمت کرے بلکہ شوہر کے ماں باپ بہن بھائی بلکہ پورے خاندان کی خادمہ ہو، اور یہ سب کچھ دین کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔ (صفحہ:۱۲۰) جواب شبہ میں سورة بنی اسرائیل کی آیت ۲۴،۲۳ سورة لقمان کی آیت نمبر۱۴ اور سورة احقاف کی آیت نمبر۱۵ بمع ترجمہ تحریر کرتے ہیں۔ پھر تفسیر بالرائے فرماتے ہیں: لہٰذا شوہر اپنے ماں باپ کی خدمت کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے اور بیوی اپنے ماں باپ کی خدمت کی ذمہ دار اور جواب دہ ہے نہ کہ شوہر کے ماں باپ کی، جو کہ در حقیقت مذاہب باطلہ کا رواج ہے(صفحہ:۱۲۰) آگے چل کر تیسری دلیل کے تحت لکھتے ہیں: شرعی لحاظ سے بیوی کی ذمہ داری صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے حق زوجیت ادا کرنا۔ اس کے علاوہ کھانا پکانا، کپڑے دھونا، اولاد کی رضاعت کرنا اور ان کی
Flag Counter