Maktaba Wahhabi

99 - 169
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اِس روایت کو ’صحیح، کہا ہے۔(ایضاً)امام ابو داؤدرحمہ اللہ نے اِس روایت پر’’دوام جہاد‘‘ کے نام سے باب باندھا ہے جو جہاد کے دائمی ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ ایک روایت جسے امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے ہی نقل کیا ہے اور اگرچہ سند کے اعتبار سے قوی تو نہیں ہے لیکن ایک ’شاہد، کے طور پراُسے نقل کیا جا سکتا ہے، میں بھی جہاد کے دائمی ہونے کااشارہ موجود ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں: ((وَالْجِھَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِیَ اللّٰہُ اِلٰی اَنْ یُقَاتِلَ آخِرُ اُمَّتِی الدَّجَّالَ لَا یُبْطِلُہٗ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ))(سنن أبی داؤد، کتاب الجھاد، باب الغزو مع أئمۃ الجور) ’’ اور جہاد اِس وقت سے جاری ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے یہاں تک کہ اِس اُمت کا آخری حصہ مسیح دجال سے قتال کرے گا، اور اِس جہاد کو کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا عدل روک نہیں سکے گا۔‘‘ امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے بھی اِس روایت کو نقل کرنے کے بعد ’سکوت، اختیار کیا ہے اور امام صاحب کے سکوت سے مراد اُن کے نزدیک اِس روایت کا ’صالح، ہونا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اِس مضمون کی روایات میں جہاد اور قتال دونوں الفاظ وارد ہوئے ہیں جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ جہاد سے مراد علماء ومجاہدین دونوں کا جہاد ہیں۔ علماء وفقہاء دین کے ’فکری غلبہ، کے لیے جہاد کرتے ہیں تو مجاہدین اِس کے’ عملی غلبہ، کے لیے۔ اسلام کا تفوق جس قدر دلیل وبرہان کی سطح پر مطلوب ہے، اُسی نسبت سے سیاسی غلبہ بھی مقصود ہے۔ اِن روایات میں دائمی جہاد سے مراد اہلِ علم کی جماعت کا جہاد بھی ہے، اِس کی دلیل صحیح مسلم کی ایک روایت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ((مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَلَاتَزَالُ عِصَابَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ))(صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تزال طائفۃ من اُمتی ظاھرین علی الحق) ’’ اللہ تعالیٰ جس سے خیر کا ارادہ رکھتے ہیں تو اُسے دین کی سمجھ عطا کرتے ہیں ،اور میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر لڑتی رہے گی۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری اور اُن کے استاذ علی بن مدینی ; کے نزدیک اِس جماعت سے مراد محدثین کی جماعت ہے۔(سنن الترمذی، أبواب الفتن، باب ماجاء فی الشام)
Flag Counter