Maktaba Wahhabi

101 - 169
ہمارے ہاں دو انتہائیں پیدا ہوئی ہیں۔ ایک انتہاتو یہ ہے کہ جہاد وقتال کی آیات سے دعوت وتبلیغ کا منہج(Methodology of Da'wah)منسوخ ہو چکا ہے اور اب قیامت تک مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل جنگ ہی ہے۔ یہ متشددین (extremists)کا نقطہ نظر ہے۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ جہاد وقتال کا منہج(Methodology of Jihad)منسوخ ہو چکا اور اب قیامت تک اسلام کے نفاذوقیام کا واحد منہج دعوت وتبلیغ اور منت وسماجت ہی ہے۔یہ متجددین(modernists) کا نقطہ نظر ہے۔ اِن دونوں انتہاؤں کے مابین کتاب وسنت کا معتدل موقف یہ ہے کہ یہ دونوں مناہج تاقیامت باقی ہیں اور اپنے اپنے زمانے میں مسلمان اپنے حالات ، اہلیت اور اسباب ووسائل کے اعتبار سے اِن میں سے جو بھی منہج زیادہ مناسب حال ،مفید اور نتیجہ خیز ہو، اُسے اختیار کر سکتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ تو ہرحال میں جاری رہے گی البتہ جہاد وقتال کی فرضیت کے لیے شرعی قیود اور شرائط کا ہونا ضروری ہے جن کی وضاحت کا یہاں موقع نہیں ہے۔ خان صاحب کا تصورِ اَمن تصورِ جہاد کی طرح مولانا وحید الدین خان صاحب کا تصورِ اَمن بھی بہت ہی عجیب قسم کی منطق پر اُستوار ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ تشدد کی دو قسم ہے۔ ایک ، غیر فعال تشدد(passive violence)۔ اور دوسرا، فعال تشدد(active violence)۔ غیر فعال تشدد یہ ہے کہ آپ دوسروں کو ظالم بتا کر اُن سے نفرت کریں۔ اور فعال تشدد یہ ہے کہ آپ دوسروں کو ظالم بتاکر اُن کے خلاف جارحانہ کاروائی شروع کر دیں۔ یہ دونوں صورتیں اسلام میں یکساں طور پر گناہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ دونوں میں سے جس تشدد کا ارتکاب کریں، آپ شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کے مرتکب قرار پائیں گے۔ دونوں قسم کے تشدد کے درمیان صرف ظاہر کا فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:ستمبر ۲۰۰۹ء، ص ۹) ظالم کو ظالم کہنا اور اِس سے ظلم کا بدلہ لینا دونوں ہی کتاب وسنت کی تعلیمات ہیں اور اِس بارے میں بیسیوں نصوص موجود ہیں ،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter