Maktaba Wahhabi

108 - 169
استثنائی طور پر دعوت اور اَمن کی اہمیت کھولی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء، ص۲۳۔۲۴) خان صاحب جس’’ استثنا‘‘ کو اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں، وہی درحقیقت اُن کا سب سے بڑا عیب ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی ہزار سالہ تاریخ میں کسی کو دین کا صحیح تصور سمجھ ہی نہیں آیا اور اگر آیا ہے تو جناب خان صاحب کو آیا ہے۔ خان صاحب فخر کی جس نفسیات میں جی رہے ہیں، اُس کے بارے میں خود ہی لکھتے ہیں: ’’ انسان کا مطالعہ بتاتاہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے اندر ایک نفسیات مشترک طور موجود رہتی ہے، فخر اور نفرت۔ فخر کا جذبہ اپنے لیے، اور نفرت کا جذبہ دوسروں کے لیے۔ ہر آدمی اِنہیں دو احساسات کے درمیان جیتا ہے اور اِنہیں دو احساسات کے درمیان مر جاتا ہے…یہ دونوں جذبے اتنا زیادہ عام ہیں کہ اِس کو انسان کا عالمی مزاج کہا جا سکتا ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: اکتوبر ۲۰۰۹ء، ص ۲۷) کتاب وسنت کا تصور جہاد واَمن جہاں تک کتاب وسنت کے تصورِجہاد واَمن کی بات ہے تویہ معتدل تصور خان صاحب کے تصور سے کلیتاً مختلف ہے۔ اِس میں دعوت وتبلیغ بھی ہے اورجہاد وقتال بھی۔ ظلم کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قتال کو مشروع قراردیا ہے ،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا﴾(الحج : ۳۹) ’’ اجازت دی گئی اُن لوگوں کو [قتال کی]جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اِس وجہ سے کہ اُن پر ظلم ہوا۔‘‘ اِس آیت میں’باء‘ تعلیل کے لیے ہے ،یعنی یہ جنگ کے حکم کی علت اور وجہ بیان کر رہا ہے۔مفسرین کی توضیح کے مطابق جنگ کے حکم کی علت کفر یا شرک نہیں ہے۔ کفار یا مشرکین سے لڑائی کا حکم اِس لیے نہیں دیا گیا کہ وہ کافر یا مشرک ہیں یا اسلام کا مقصود دنیا کوکفار و مشرکین سے پاک کرنا ہے ،بلکہ کفار اور مشرکین سے جنگ کے حکم کی بنیادی وجہ بھی ظلم ہی ہے ،کیونکہ جہاں جس قدر شرک اور کفر ہو گا وہاں اتنا ہی ظلم ہو گا۔ اِس لیے کفار اور مشرکین سیلڑائی دراصل ظالمین(tyrants)سے جنگ ہے ،کیونکہ ظلم اور شرک
Flag Counter