Maktaba Wahhabi

51 - 169
فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَیْہِ وَإِنْ لَمْ یَکُنْہُ فَلَا خَیْرَ لَکَ فِیْ قَتْلِہٖ))(صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ) ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیں میں اُس کی گردن اڑا دوں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہ ابن صیاد وہی دجال ہے تو تُو ہر گز اِس پر قابو نہ پا سکے گا،اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو اِس کے قتل میں تیرے لیے کوئی خیر کا پہلو نہیں ہے۔‘‘ قابل ِغور نکتہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دجال سمجھ کر جسمانی طور قتل کرنے کی اجازت کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں فرمایا کہ قتل دجال کا مطلب کسی شخص کو جسماً قتل کرنا نہیں ہے اور یہ تو ایک نظریے کا استدلالی قتل ہو گا، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس طرف اشارہ کیا کہ اگر تو یہ وہی شخص دجال ہے جس کا آخری زمانے میں ظہور ہونا ہے تو اِس کو قتل کرنا حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا مقدر ہے۔ اِس کے علاوہ بھی کئی ایک روایات ہیں کہ جن میں دجال سے مراد رب ہونے کا دعویدار شخص اور اُس کے قتل سے مراد اُس کا جسمانی قتل لیا گیا ہے ،لیکن ہم طوالت کے سبب سے اُنہیں یہاں نقل نہیں کر رہے ہیں۔ غلط تاویلات کی غلط بنیاد معتزلہ، قدریہ، جبریہ، باطنیہ، قرامطہ، بہائیہ، روافض اور غالی صوفیاء وغیرہ سے لے کر عصر حاضر کے قادیانی، منکرین حدیث اور متجددین تک جن لوگوں نے بھی کتاب وسنت کی غلط تاویلات پیش کی ہیں، اِن سب کی تاویلات تواگرچہ مختلف ہیں لیکن استدلال کی بنیاد اتفاقی ہے اور وہ یہ کہ اِن سب نے کتاب وسنت کی ’حقیقت‘ کو چھوڑا ہے۔ ’حقیقت، علم بلاغت کی ایک اصطلاح ہے، جس کے مطابق ایک لفظ کو اُس کے وضعی معنی میں استعمال کرنا ’حقیقت‘ کہلاتا ہے۔ مثلاً اہل لغت نے ’چاند‘ کا لفظ اَجرام فلکی میں سے ایکجسم کے لیے وضع کیا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص لفظ ’چاند‘ سے آسمان میں موجود چاند مراد لے تو یہ کہیں گے کہ اُس نے حقیقی معنی مراد لیا ہے۔ اور اگر کوئی شخص ’چاند‘ کے لفظ سے ’محبوب‘ وغیرہ مراد لے تو یہ ’مجاز‘کہلائے گا۔ مجازی معنی میں ایک لفظ کا استعمال
Flag Counter