Maktaba Wahhabi

83 - 169
ہے،وہ نصبِ امامت نہیں بلکہ انذار وتبشیر ہے۔ اِس انذار وتبشیر کی مہم میں جو مراحل بھی پیش آئیں،انھیں اِس میں پوری طرح ثابت قدم رہنا چاہیے۔ اگر انھوں نے ایسا کر دیاتو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کی مدد فرمائے گا اور اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کرے گا جوانھیں اقتدار حکومت تک لے جانے والے ہوں۔ پہلی صورت میں حکومت قائم کرنا اہل ایمان کا فرض ہے۔ دوسری صورت میں حکومت ملنا اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص۳۰۶) ایک اور جگہ فکرِ مودودی سے پیدا ہونے والے غلو کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ اِس تعبیر کے مطابق اسلامی مشن کا جو تصور سامنے آتاہے وہ ہے ’نظام بدلنا‘۔ میں مانتا ہوں کہ اسلامی جدوجہد کے مراحل میں سے ایک مرحلہ یہ بھی ہے، مگر اِس تعبیر نے اِس کو اِس کے واقعی مقام سے ہٹا دیا ہے۔‘‘(تعبیر کی غلطی،ص۲۷۰) اِسی طرح خان صاحب فکرِ مودودی میں غلو سے پیدا ہونے والے اراکین کی صفات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ایسے لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنے آپ سے غافل ہوں گے، مگر مسائل عالم کے موضوع پر گفتگو کرنے سے اُن کی زبان کبھی نہیں تھکے گی۔ نماز کی ’اقامت، سے انھیں کچھ زیادہ دلچسپی نہ ہو گی، مگر وہ حکومت الٰہیہ قائم کرنے کا نعرہ بلند کریں گے۔اُن کی اپنی زندگی میں زبردست خلا ہوں گے ، مگر وہ عالمی نظام کے خلا کو پُر کرنے کی باتیں کریں گے۔ اُن کا گھر جہاں وہ آج بھی قوام کی حیثیت رکھتے ہیں،اُس میں اپنی بساط بھر عام دنیا پرستوں کے گھر کی تقلید ہو رہی ہو گی، مگر ملک کے اندر وہ قوام کی حیثیت حاصل کرنے کی تحریک چلائیں گے تا کہ ملک کو دنیا پرست لیڈروں کے اثرات سے پاک کر سکیں۔ اُن کا سینہ خدا کی یاد سے خالی ہو گا، مگر وہ اقتدار حاصل کر کے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن پر قبضہ کرنے کی تجویز پیش کریں گے، تاکہ دنیا میں خدا پرستی کا چرچا کیا جا سکے۔ اپنی ذاتی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے لیے جن اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے،اُن پر عمل کرنے میں وہ ناکام رہیں گے، مگر ملکی نظام سے لے کر اقوام متحدہ کی تنظیم تک کی اصلاح کے لیے ان کے پاس درجنوں اصول موجود ہوں گے۔اُن کے کاغذی نقشے اور اخباری بیانات دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ ملتِ اسلام کا انھیں کس قدر درد ہے کہ کسی مسئلے کا دور قریب کا رشتہ بھی
Flag Counter