Maktaba Wahhabi

82 - 169
زندگی سے متعلق ہو وہ سیاست سے خالی نہیں ہو سکتا۔ مجھے اِس سے بھی اختلاف نہیں ہے کہ کسی مخصوص وقت میں کوئی اسلامی گروہ سیاست پر کتنی قوت صرف کرے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ہنگامی مرحلے میں کسی اسلامی گروہ کو اپنی بیشتر یا ساری قوت سیاسی تبدیلی کے محاذ پر لگا دینی پڑے۔ میرا اعتراض دراصل یہ ہے کہ سیاست جو صرف اسلام کا ایک پہلو ہے،اسی کی بنیاد پر پورے اسلام کی تشریح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک چیز اپنی صحیح حیثیت میں حقیقت ہو سکتی ہے لیکن اُس کو صحیح مقام سے ہٹا دیا جائے تو ایک صحیح چیز بھی غلط ہو کر رہ جائے گی۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص۲۶۶) ایک اور جگہ ہندوستان کی نسبت پاکستان میں نفاذِ شریعت اور امارتِ اسلامیہ کے قیام کی تحریک کے جواز کی بات کرتے ہوئے خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ اب میں بتاؤں گا کہ مذکورہ بالا تشریح دین کے مطابق اِس وقت کرنے کا کام کیا ہے۔ اِس سلسلے میں جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ وہاں مولانا مودودی قانونِ شریعت کے نفاذ کی جو مہم چلا رہے ہیں اس کو شکلاً میں درست سمجھتا ہوں۔ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اور آزادی کے بعد اصولی طور پر وہاں کی آبادی کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اپنے یہاں جس طریق زندگی اور جس نظامِ معاشرت کو چاہے رائج کرے۔ ایسی حالت میں پاکستان کی اُمتِ مسلمہ کا یہ فرض ہو گیا ہے کہ وہ اپنے درمیان اسلامی نظامِ امارت قائم کرے اور اِس کے تحت زندگی کے تمام شعبوں کو اسلامی احکام وقوانین کے مطابق منظم کرے۔ تاہم نفاذِ شریعت کی مہم میں حکمتِ تدریج کو ملحوظ رکھنا لازمی طور پر ضروری ہے۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص۳۲۸) ایک اور جگہ ہندوستان اور پاکستان میں سیاسی نظام کے قیام کے امکانات اورمنہج کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ صحیح بات یہ ہے کہ ایک آزاد مسلم معاشرے کا فرض تو یقینا یہی ہے کہ وہ اپنے درمیان اسلام کی بنیادوں پر ایک سیاسی نظام قائم کرے ،کیونکہ اِس کے بغیر معاشرے کے پیمانے پر شریعت کی تعمیل نہیں کی جا سکتی۔ مگر جہاں مسلمان اِس حیثیت میں نہ ہوں،وہاں اسلام اُن کو خارجی زندگی کے لیے جو پروگرام دیتا
Flag Counter