Maktaba Wahhabi

63 - 169
کَانُوا بِآیَاتِنَا لَا یُوقِنُونَ﴾(النمل: ۸۲) ’’ اور جب اُن پر قیامت کے واقع ہونے کی بات طے ہو جائے گی تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔‘‘ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آیت مبارکہ میں صرف ’’دابۃ‘‘کا لفظ نہیں ہے بلکہ((دَابَّۃً مِّنَ الْأَرْضِ ))یعنی’ زمین سے دابہ‘ کے الفاظ ہیں اور اِس سے پہلے((أَخْرَجْنَا))کے الفاظ ہیں جو ’نکالنے، کے معنی میں ہے۔ پس آیت کے الفاظ کا معنی ’’زمین سے دابہ کو نکالنا‘‘ہے۔ اب اگر دابہ سے انسان مراد لے بھی لیا جائے تو زمین سے اِس کے نکالنے کے کیا معنی ہیں؟ آیت کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ جیسے حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے لیے چٹان سے اونٹنی برآمد کی گئی تھی تا کہ اُن کے لیےحجت تمام ہو، اِسی طرح قیامت قائم ہونے سے پہلے لوگوں پر اِتمام حجت کے لیے زمین سے ایک جانور نکالا جائے گا اور یہ خرقِ عادت(metaphysical)واقعات میں سے ہو گا۔ پھر اِس کے بعد آیت کے الفاظ((تُکَلِّمُہُم))کہ وہ جانور گفتگو کرے گا، میں بھی اُس کے خرق عادت پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ علاماتِ قیامت مثلاً نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام، دجال کی آمد، یاجوج ماجوج کا خروج، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور دابۃ الارض وغیرہ کا نکلنا، پر غور کیا جائے تو تمام علامات درحقیقت خرقِ عادت اور کرشماتی(supernatural and metaphysical)پہلو لیے ہوئی ہیں تا کہ لوگوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا آخری درجے میں یقین دلانے کے لیے اُن پر اِتمامِ حجت ہو سکے۔صحیح مسلم کی ایک روایت میں ترکیب اضافی کے ساتھ((دَابَّۃُ الْاَرْضِ))کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا انگریزی ترجمہ(beast or dragon of doomsday)کیا گیاہے۔ (موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم: ۱؍۷۷۸)قرآن مجید میں ترکیب اضافی کے ساتھ((دَابَّۃُ الْاَرْضِ))کا لفظ ’دیمک‘ (termite)کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مَا دَلَّہُمْ عَلَی مَوْتِہِ إِلَّا دَابَّۃُ الْأَرْضِ تَأْکُلُ مِنسَأَتَہُ﴾(سبأ: ۱۴) ’’پس سلیمان علیہ السلام کی وفات پر زمین کے ایک کیڑے نے جنات کی رہنمائی کی جو اُن کے عصا کو کھا رہا تھا۔‘‘
Flag Counter