Maktaba Wahhabi

45 - 169
کُلَّمَا اَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَۃً أَوْ وَاحِدًا مِنْھُمَا اسْتَقْبَلَنِیْ مَلَکٌ بِیَدِہِ السَّیْفُ صَلْتًا یَصُدُّنِیْ عَنْھَا وَإِنَّ عَلٰی کُلِّ نَقْبٍ مِنْھَا مَلَائِکَۃً یَحْرُسُوْنَھَا))(صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ ، باب قصۃ الجساسۃ) ’’ قریب ہے کہ مجھے خروج کی اجازت مل جائے پس میں نکلوں گا اور زمین میں چلوں پھروں گا۔ پس چالیس راتوں میں،مَیں کسی بھی بستی سے نہیں گزروں گا لیکن اُس کو نیست ونابود کر دوں گا سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ پس اِن دونوں بستیوں میں داخلہ مجھ پر حرام ہے۔پس جب بھی میں مکہ اور مدینہ میں سے کسی بستی میں داخل ہونا چاہوں گاتو ایک فرشتہ میرے سامنے تلوار سونتے کھڑا ہو گاجو مجھے اِس میں داخل ہونے سے روکے گا اور اِن دونوں بستیوں میں داخلے کے ہر رستے پر کچھ فرشتے پہریدار مقرر ہوں گے۔‘‘ اگرفتنہ دجال سے مراد نظریاتی فتنہ ہے تومکہ اور مدینہ میں اِس نظریہ کے داخل ہونے میں کیا ممانعت ہے؟ اور پھر اِس نظریے کو مکہ ومدینہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بھی کیا تلوار سونتے فرشتے مقرر کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟ جبکہ اَمر واقعہ یہ ہے کہ جسے خان صاحب دجال قرار دیتے ہیں یعنی مغرب کا الحادی فکر اور مشرق میں مسلم مفکرین کی دین کی سیاسی تعبیر، یہ سب کچھ جدید وسائل اور میڈیا مثلاً انٹرنیٹ وغیرہ کے رستیسے آج مکہ ومدینہ میں داخل ہو چکے ہیں ۔ اب یہ بعد کا مسئلہ ہے کہ اہل حرمین کے نزدیک اِن افکار کی قبولیت(acceptance)کا گراف کیا ہے؟ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ جب دجال کا خروج ہو گا اور ایک بندہ ٔمؤمن اُس سے ملاقات کا قصد کرے گا تو اس کے چیلے اس کو روکیں گے اور سوال کریں گے: ((فَیَقُوْلُوْنَ لَہٗ أَیْنَ تَعْمِدُ؟ فَیَقُوْلُ أَعْمِدُ إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ خَرَجَ، قَالَ فَیَقُوْلُوْنَ لَہٗ أَوْ مَا تُؤْمِنُ بِرَبِّنَا؟ فَیَقُوْلُ مَا بِرَبِّنَا خَفَائٌ، فَیَقُوْلُوْنَ اقْتُلُوْہُ، فَیَقُوْلُ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ أَلَیْسَ قَدْ نَھَاکُمْ رَبُّکُمْ أَنْ تَقْتُلُوْا أَحَدًا دُوْنَہٗ، قَالَ فَیَنْطَلِقُوْنَ بِہٖ إِلَی الدَّجَّالِ))(صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب فی صفۃ الدجال وتحریم المدینۃ علیہ) ’’ پس دجال کے چیلے اِس بندئہ مؤمن سے کہیں گے کہ کہاں کا قصد ہے؟ وہ کہے گا
Flag Counter