Maktaba Wahhabi

121 - 169
نے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ بہاء اللہ خاں(وفات۱۸۹۲ء)اور مرزا غلام احمد قادیانی(وفات ۱۹۰۸ء)، مگر تاریخی ریکارڈ کے مطابق یہ بات درست نہیں۔ بہاء اللہ خاں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں مظہر حق ہوں۔ اُنہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ اِسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے کبھی اپنی زبان سے یہ نہیں کہاکہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ اُنہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں ظل نبی ہوں، یعنی نبی کا سایہ ہوں۔ اِس طرح کے قول کو ایک قسم کی دیوانگی تو کہا جا سکتا ہے، لیکن اِس کو دعوائے نبوت نہیں کہا جا سکتا۔‘‘(ایضاً: ص ۱۲۔۱۳) جہاں تک خان صاحب کے اِس نقطہ نظر کا معاملہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی غیر پیغمبر کے لیے نبوت کا دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہے، تو یہ ایک غلط موقف ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ ہی اِس دعویٰ کے بطلان کے لیے کافی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِّنْ ثَلَاثِیْنَ، کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ))(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام) ’’ اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تیس کے قریب دجال اور کذاب نہ پیدا ہوں۔ ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہو گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ دجال اپنے آپ کو’ اللہ کا رسول، سمجھتے ہوں گے جبکہ خان صاحب کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ جہاں تک مسیلمہ کذاب کے دعوائے نبوت کی صراحت کا معاملہ ہے تو اُس کے لیے اتنا بیان ہی کافی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے ۱۰ ہجری کے اواخر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خط لکھا تھا اُس کا آغاز ہی اِن الفاظ سے ہوتا ہے: ((مِنْ مسیلمۃ رسول اللّٰہ إلی محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، أما بعد، فإنی أشرکت فی الأمر معک، وإن لنا نصف الأرض ولقریش نصف الأرض))(مستخرج أبی عوانۃ: ۴؍۳۶۵) ’’مسیلمہ اللہ کے رسول کی طرف سے محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، اما بعد۔
Flag Counter