Maktaba Wahhabi

107 - 169
(اسلامک سنٹر)ہیں۔ امریکا میں اسلام کے نام پر جتنی سرگرمیاں ہوتی ہیں، اتنی سرگرمیاں غالباً کسی مسلم ملک میں بھی نہیں ،وغیرہ۔ اِس تقابل پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ امریکا کا کیس نہ اینٹی اسلام کیس ہے اور نہ پرو مسلم کیس، بلکہ اُس کا کیس پروامریکا کیس ہے، یعنی امریکا جو کچھ کر رہا ہے، وہ اپنے قومی مفاد کے لیے کر رہا ہے، نہ کہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کے لیے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:جنوری ۲۰۱۱ء، ص ۳۴) سوال یہ ہے کہ اگر امریکا نے افغانستان اور عراق پر حملہ اسلام اور مسلمان دشمنی میں نہیں کیا تو صدر بش نے اِس امریکی جنگ کو ’’کروسیڈ،،(crusade)کیوں قرار دیا؟ اور کروسیڈ(صلیبی جنگیں)مفادات کی جنگ تھی یا مذہبی؟ باقی رہی یہ بات کہ امریکہ پاکستان کی امداد کیوں کر رہا ہے تو واضح ہے کہ پاکستان افغانستان کے خلاف امریکی جنگ میں اُسے لاجسٹک سپورٹ مہیا کر کے ایک ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اور تاحال افغانستان میں بیشتر نیٹو سپلائی پاکستان سے جا رہی ہے۔ سعودی عرب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اُس نے بھی عراق کے خلاف امریکی جنگ میں امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے اور تیل فراہم کیا اور اب تک وہاں امریکی افواج موجود ہیں۔ اِن ممالک پر امریکہ کے براہ راست حملہ آور نہ ہونے کی وجوہات میں سے اہم وجہ اُن ممالک کا امریکہ کی جنگ میں اُس کا ساتھ دینااور ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہے۔ خان صاحب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کا تصورِ اَمن وہ تصور ہے جو پچھلے ہزار سال میں پہلی دفعہ اُن کی طرف سے پیش ہوا ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ پچھلے ہزار سال میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوا، اِس میں سب کچھ تھا، مگر اِس میں دو چیز مکمل طور پر حذف تھی اور اور وہ ہے دعوت اور اَمن کا تصور۔ اِس کے بعد جب مغربی طاقتوں نے مسلم ایمپائر کو توڑ دیا تو اِس کے خلاف رد عمل کی بنا پر یہ ذہن اور زیادہ پختہ ہو گیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری، منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں کی نذر ہو گئی۔ اِس پوری صدی میں نہ دعوت کا پیغام لوگوں کے سامنے آیا اور نہ اَمن کا پیغام، جب کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ نے
Flag Counter