Maktaba Wahhabi

106 - 169
مطالبہ یہ ہے کہ وہ ’’دشمن سے محبت کرو‘‘(Love your enemy)کی نفسیات پر عمل کریں اور مسیحی دنیا ’’ دشمن سے لڑو‘‘ ((Fight your enemy)کی نفسیات پر عمل کرے تا کہ خدائی مشن کی تکمیل ہو! مرنے مارنے کا کام امریکہ کرے تو وہ خدائی مشن بن جاتا ہے! اور مسلمان کریں تو ٹررازم! کیا عجب نرالی منطق ہے! اور رد عمل کی نفسیات میں ذرا مسلم ممالک سے اظہارِ نفرت کی انتہا دیکھیں۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’موجودہ زمانے میں ۵۷ مسلم ملک ہیں۔ مگر یہ کہنا غالباً درست ہو گا کہ اس وقت اسلام کی خدمت کے جتنے مواقع امریکا میں ہیں، وہ غالباً کسی مسلم ملک میں بھی نہیں۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: اکتوبر ۲۰۱۰ء، ص۹) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’امریکا میں اسلام کے نام پر جتنی سرگرمیاں ہوتی ہیں، اتنی سرگرمیاں غالباً کسی مسلم ملک میں بھی نہیں ،وغیرہ۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جنوری ۲۰۱۱ء، ص ۳۴) ایک اور جگہ خان صاحب لکھتے ہیں کہ مسلم دنیا کے خلاف امریکی جنگ قومی مفاد کی جنگ ہے نہ کہ مسلمان یا اسلام دشمنی کی جنگ۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ امریکا کے عراق پر حملے سے پہلے عام طور پر مسلمانوں میں امریکا کے بارے میں اچھی رائے تھی۔ اِس وقت عرب لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے تھے کہ : أمریکا صَدِیق کبیر(امریکا ایک بڑا دوست ہے)لیکن بعد کے زمانے میں جب امریکا کی فوجوں نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا تو اِس کے بعد لوگوں کی رائے بدل گئی۔ اب عرب عام طور پر یہ کہنے لگے : أمریکا عدو الاسلام رقم واحد( امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ امریکا کے بارے میں یہ منفی رائے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں میں پائی جاتی ہے، خواہ وہ عرب ہوں یا غیر عرب۔ یہ سوچ موجودہ دنیا میں قابل عمل نہیں…مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ کیوں ایسا ہے کہ امریکا نے عراق پر بم باری کی، لیکن وہی امریکا سعودی عرب کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ امریکا ایک طرف اسرائیل کی مدد کرتا ہے اور دوسری طرف وہی امریکا پاکستان کو غیر معمولی مدد دے رہا ہے۔ جارج بش سینئر کے دور سے پہلے امریکا میں ایک بھی مسجد نہیں تھی اور آج امریکا میں ایک ہزار سے زیادہ مسجدیں
Flag Counter