Maktaba Wahhabi

103 - 169
اَمر واقعہ یہ ہے کہ خان صاحب مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع یاتاویل ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہ عیسائیوں اور مسیحیت کے گن گاتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ اا ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا میں غیر متوقع نوعیت کا بھیانک واقعہ ہوا۔ ایک خود کش ٹیم نے امریکا کے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کر لیا اور ان کو اڑاتے ہوئے لے جا کر نیویارک اور واشنگٹن کے اسکائی اسکریپرس(بلند بالا عمارتوں)سے ٹکرا دیا۔ اِس کے نتیجہ میں ہولناک تباہی برپا ہوئی۔ تقریبا سات ہزار آدمی اچانک ہلاک ہو گئے، وغیرہ۔ یہ گویا امریکا پر ایک فضائی حملہ تھا۔ اِس کے بعد امریکا نے انتقامی کارروائی کے طور پر ۸اکتوبر ۲۰۰۱ء کو افغانستان کے اوپر بمباری شروع کر دی، کیوں کہ امریکا کے نزدیک ۱۱ستمبر کے واقعہ کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن ہے ،جس کو افغانی طالبان کی پوری حمایت حاصل ہے اور جو افغانستان میں اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر امریکا کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں چلا رہا ہے۔ ۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکا نے افغانستان کے خلاف جو کارروائی کی وہ انٹرنیشنل نارم کے مطابق درست تھی، کیونکہ وہ ڈیفنس کے طور پر کی گئی۔ اِس کے باوجود ایسا ہوا کہ ساری دنیا میں امریکا کو برا کہا جانے لگا، امریکا کے خلاف لوگوں کی نفرت بہت زیادہ بڑھ گئی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۰۷ء، ص ۳۰۔۳۱) خان صاحب کی تحریروں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں مسلمانوں ہی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور اِس عمل کا اُن کے پاس باقاعدہ جواز بھی موجود ہے۔ ایک جگہ دنیا کے ہر فساد وبگاڑ کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالنے کے اپنے اِس عمل کی توجیہہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ الرسالہ کا انداز قرآنی ہے ،کیونکہ قرآن نے جنگ اُحد میں مسلمانوں کے جانی ومالی نقصان کی ساری ذمہ داری یک طرفہ طور پر اُنہی پر ڈالی اور مشرکین مکہ کے جارحانہ اقدام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مارچ ۲۰۰۷ء، ص۴۵۔۴۶) مشرکین پر دیگر بیسیوں مقامات پر قرآن نے جو رد کیا ہے، وہ خان صاحب کو نظر
Flag Counter