Maktaba Wahhabi

102 - 169
﴿لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَ﴾(النساء : ۱۴۸) ’’ اللہ تعالیٰ کسی کی برائی کا تذکرہ بلند آواز میں پسند نہیں کرتا سوائے مظلوم کے [یعنی مظلوم کو اِس کی اجازت ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز بلند کرے]۔‘‘ اِسی طرح اللہ تعالیٰ اہل ایمان وتقویٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿وَالَّذِیْنَ اِذَٓا اَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ہُمْ یَنْتَصِرُوْنَ﴾(الشوریٰ: ۳۹) ’’ اور ان پر جب کوئی ظلم ہوتاہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔‘‘ کتاب وسنت کی اِن معتدل تعلیمات کے برعکس خان صاحب اُمتِ مسلمہ کو مسیحی ماڈل کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ معرفت صرف اُن عورتوں اور مردوں کو ملتی ہے جو ہمیشہ مثبت سوچ کے ساتھ رہنے والے ہوں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کے لیے بھی موافق حالات کا ملنا ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں مثبت سوچ پر قائم رہنے کا فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ ہی یک طرفہ اخلاقیات(unilateral ethics)یعنی یک طرفہ طور پر دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، خواہ وہ اچھا سلوک کرتا ہو یا برا سلوک۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جون ۲۰۱۱ء ، ص۲۴) ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’ مسلمانوں کی نفسیات اور مسیحی لوگوں کی نفسیات کے تقابلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کی جو سیاسی تاریخ بنی اور ان کے یہاں جو لٹریچر تیار ہوا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ذہن یہ بنا کہ دشمن سے لڑو : Fight your enemy۔ اس کے برعکس ، مسیحی لوگوں کا ذہن ان کی روایات کے مطابق، یہ بنا کہ دشمن سے محبت کرو : Love your enemy۔ یہی نفسیات دونوں قوموں کے اندر عمومی طور پر پائی جاتی ہے۔ جہاں تک صلیبی جنگوں، یاپہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کا معاملہ ہے، و ہ مسیحی عوام کی نفسیات کا مظاہرہ نہ تھا، بلکہ وہ کچھ مسیحی لیڈروں کی سیاسی معرکہ آرائی اور کشور کشائی کا نتیجہ تھا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:جنوری ۲۰۱۰ء، ص۲۹)
Flag Counter