Maktaba Wahhabi

48 - 61
سننے اور سنانے ہی کے لیے ہے ؟ کیا آج مسلمانوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات سے کچھ بھی سبق نہیں ملتا؟ عمل کے لیے ان واقعات میں کیا کوئی خاکہ نہیں مل رہا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوگا کہ اس کے خلیل علیہ السلام کو سال میں ایک مرتبہ یاد کرلیا جائے اور پھر اس طرح بھول جائیں کہ جس طرح دوسال کا بچہ چاکلیٹ کھاکر بھول جاتا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے: ؎ آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا اس عظیم الشان پیغمبر کے واقعہ میں نہ صرف عبرت ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے کامیابی کے تمام راز چھپے ہوئے ہیں، صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے ہردرد کی دوا موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {قَدْ کَانَتْ لَکُمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ…} (سورۂ ممتحنۃ:۴) ’’(مسلمانو!) ابراہیم اور ان کے ساتھیوں (کے طریقے) میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ مگر کلام اللہ میں تدبر وتفکر یعنی غور و فکر شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے و لاڈلے بیٹے کو جو بڑھاپے کا سہارا، بڑی منتوں مرادوں سے پیدا ہونے والااور خاندان کا چشم وچراغ تھا قربان کردیایہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عین چھری کے نیچے سے اپنے بندہ کو بچالیا۔ اپنی اولاد کی قربانی کی رسم تو مشرکین مکہ کے پاس بھی تھی۔ وہ بھی منت مانتے تھے کہ اگر ان کو دس بارہ بیٹے ہوجائیں (لڑکیاں نہیں ) توایک بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داداعبدالمطلب نے بھی اس طرح کی منت مانی تھی۔ لیکن کیا بات ہے کہ
Flag Counter