((اِتَّقُو الظُّلْمَ،فَاِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَاتَّقُوا الشُّحَّ،فَاِنَّ الشُّحَّ اَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ وَحَمَلَھُمْ عَلٰی اَنْ سَفَکُوْا دِمَائَ ھُمْ وَ اسْتَحَلَّوا مَحَارِمَھُمْ)) [1] ’’ ظلم سے بچو! کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کی صورت میں رونما ہوگا اور حرص سے بچو کیونکہ حرص نے تم سے قبل کے لوگوں کو ہلاک کردیا۔ حرص نے انسانوں کو خون بہانے پر آمادہ کیااور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے پر۔‘‘ شادی بیاہ کے معاملات میں دولھے والے دلہن والوں سے جہیز مانگ کر ظلم ڈھاتے ہیں، دلہن والے ان کی ناجائز مانگ کو پورا کرکے خود اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں طرف کے لوگ اللہ کی حرام کردہ چیز کو اپناتے ہیں۔ بہ ایں ہمہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرکے خود کو جہنم کے مستحق ٹھہراتے ہیں۔ اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُمْ۔رحمت للعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم کفار سے جنگ کے دوران بھی دشمنوں سے نرمی اور بھلائی کی راہ اختیار کرنے کا حکم صادر فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان فوجیوں سے فرماتے تھے: ’’اللہ کا ڈر اختیار کرو،غز وہ کرو خیانت نہ کرو، کسی بچے یا بوڑھوں کو قتل نہ کرو، احبارو رھبان کو قتل نہ کرو، آسانی کرو سختی نہ کرو، لوگوں کو سکون پہنچاؤ متنفر نہ کرو، کسی کو آگ میں نہ جلاؤ، عورتوں کو نہ مارو نہ قتل کرو، لو ٹ مار نہ مچاؤ۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں۔ کھیتی باڑی تباہ نہ کرو۔ جانور ہلاک نہ کرو کسی زخمی پر حملہ نہ کرو۔ بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو۔‘‘[3] لیکن ہائے افسوس! آج مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے یہی سب ظلم وزیادتی |