جاسکے۔ میڈیا کے تن آور درخت سے پھل لینے کے لیے ضروری ہے۔ اسلامی ادیب اور قلمکار جن کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی قدرت دی ہے، یا پھر خطابت اور تالیف کا ملکہ دیا ہے وہ میڈیا پر آئیں اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کا ہر لحاظ سے تعاون کریں تاکہ فکری امن کا حصول ممکن ہو۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ جب بھی میڈیا والے بلائیں یہ حاضر ہوں اور جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کریں ۔ کیونکہ یہ ان کی گردن میں دین و اُمت کے لحاظ سے امانت ہے۔ جب ان امور کا اہتمام کیا جائے اور یہ کوششیں کی جائیں گی تو نوجوانوں میں فکری امن کے قیام میں میڈیا کا کردار اہم ترین ہوگا۔ میڈیا نوجوانوں میں اس اسلامی ثقافت کو اجاگر کر سکتا ہے جو ہمارے دین حنیف اور راسخ عقیدہ سے لی گئی ہو اور اسلامی معاشروں اور افراد کو مغربی تہذیب سے بچانے میں اسلام کا مضبوط قلعہ اور پناہ گاہ تصور ہو۔ وہ انہیں مغربی معنوی نشہ سے بچانے کا سبب ہو۔ وہ جہاں ان کو منحرف افکار سے بچانے کا سبب ہے وہاں انہیں جرائم سے محفوظ رکھنے کا بھی باعث ہے، کیونکہ جرائم کا میدان انتہائی خطرناک ہے تاکہ ہمارے نوجوان دہشت گردی، تشدد، غلو اور تضاد کی دعوت دینے اور قبول کرنے والے نہ ہوں ۔ ذرائع ابلاغ میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے جیسا کہ ڈش اور انٹرنیٹ وغیرہ تو یہ فکری انحراف اور اخلاقی بگاڑ کا سبب ہے، اور فکری امن کو تہس نہس کرنے کے مترادف ہے۔ یہ دعوت دین کو غلط راستے کی طرف لے جانے کا سبب ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ میڈیا پر نگرانی مقرر کی جائے جس میں ایک ایسا ضابطہ اخلاق طے پائے جو بے راہ روی اور فکری انحراف کے سامنے مضبوط بند کی حیثیت رکھتا ہو۔ ایک عام اندازے کے مطابق اس وقت مغربی ممالک میں پانچ ہزار 5000 ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں جو تمام کے تمام اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ۔ غیرت مند لوگ مزید ایسے چینلز پر اطلاع پاتے رہتے ہیں اور معلوماتی سائٹس بناتے رہتے ہیں تاکہ لوگوں میں صحیح فکر کو پروان چڑھایا جا سکے اور فکری امن کی حفاظت ہو سکے، اور |