شخص اللہ تعالیٰ کے راستہ پر پوری بصیرت کے ساتھ چلتا ہے اور ہدایت اختیار کرتا ہے۔ یہ انعام تو دنیا میں ہے۔ جبکہ آخرت میں اس کے لیے گناہوں کی بخشش اور غلطیوں کی معافی کا اعلان ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں عبادات کے نتیجہ میں جن اثرات کے مرتب ہونے کا ذکر سنت مطہرہ میں ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں ہے جو آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے ذکر کی ہے۔ آپ نے یہ عظیم وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو وہ تجھے محفوظ رکھے گا، تو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔‘‘ [1] اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کی حفاظت کرنا دو اقسام پر مشتمل ہے: (1)… اس کے بدن، مال، جان اور اہل و عیال کی حفاظت۔ (2)… گمراہ کن شبہات اور حرام شدہ شہوات سے حفاظت۔ یہ اسی وقت ہے جب وہ سیدھی راہ پر چلے اور دین و دنیا کے امور میں استقامت اختیار کرے۔ [2] جو تفصیل گزر چکی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اطاعت اور اعمالِ صالحہ فکری امن کے قیام کی بنیاد جبکہ گناہ اور محرمات کا ارتکاب معاشرہ کی کشتی کو ڈبونے کا سبب ہے۔ فکری انحراف درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ ہے۔ گناہوں کے انتہائی برے اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں ۔ اسلامی معاشرہ میں فکری امن بنیادی عنصر ہے اسے انسانی زندگی میں شریعت کی تطبیق سے الگ کرنا ناممکن ہے اس کے اور اجتماعی رویوں کے درمیان فرق کرنا بھی ناممکن ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں |