Maktaba Wahhabi

75 - 91
نہ دیکھے ‘‘ جس طرح عورت یا مرد باہم ایک دوسرے کی شرمگاہ نہیں دیکھ سکتے اسی طرح کسی عورت کو مرد کی یا مر دکو کسی عورت کی شر مگاہ دیکھنا بھی با لا جماع حرام ہے۔زندہ ہی نہیں بلکہ انسان میت ہو تب بھی اس کی شرمگاہ دیکھنا نا جائز ہے اس لئے غسل کے وقت ناف اور گھٹنوں تک کپڑا ڈال لینا چاہیے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا تَنْظُرْ إِلٰی فَخِذِ حَیٍّ وَلَا مَیِّتٍ ‘‘( ابو داؤد،ابن ماجہ،حاکم وغیرہ ) ’’کہ کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران کو مت دیکھو‘‘ یہ روایت گو ضعیف ہے مگر دوسری روایات اس کی مؤید ہیں جیسا کہ علامہ شوکانی نے نیل الاوطار( ص۵ ج۲ )میں کہا ہے۔مولانا عبد الحی لکھنوی نے نقل کیا ہے کہ اجنبی عورت کی ہڈیوں کو دیکھنا بھی جائز نہیں۔(نفع المفتی والسائل: ص۱۱۳)،ایک حدیث کے تو الفاظ ہیں۔ ’’مَنْ نَظَرَ إِلٰی عَوْرَۃِ أَخِیْہِ مُتَعَمِّدًا لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہٗ صَلَاۃَ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ‘‘ (اخبار اصبھان: ص۳۰۸ ج۲ کنز العمال :ص۳۳۰ج۵) ’’کہ جس نے اپنے بھائی کی شرمگاہ کو قصدا دیکھا اللہ تعالیٰ اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کریں گے ‘‘ مگریہ روایت سندً ا کمزور ہے،حضر ت عمربن عبد العز یز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’اَلنَّظْرُ إِلٰی عَوْرَۃِ الصَّغِیْرِ کَا لْنَّظْرِ إِلٰی عَوْرَۃِ الْکَبِیْرِ ‘‘’’کہ بچے کی شرمگاہ کو دیکھنا اسی طرح ہے جیسے بڑے کی شرمگاہ کو دیکھا جائے۔(شعب الا یمان :ص۱۶۲ ج۶)البتہ والدین یا دودھ پلانے والی کا حکم اس سے مستثنیٰ ہے۔ بنی اسرائیل کی ایک بد عادت یہ بھی تھی کہ وہ سر عام ننگے نہاتے تھے اور ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھتے تھے(بخاری: ص۴۲ ج۱)اس کے لئے انہوں نے ’’حمام‘‘بھی بنا رکھے تھے۔ آج بھی یورپ کی اندھی تقلید میں فائیو سٹار ہو ٹلوں کے تالابوں میں ننگے نہانے کا شغل جاری ہے۔(اعاذنا اللہ منہ )ہمارے اسلاف اس مسئلے میں کتنے محتاط تھے ؟اس کا انداز ہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ ابو بکر بن میمون فرماتے ہیں۔میں ایک بار امام محمد بن ابی نصر الحمید ی
Flag Counter