ہے ؟میں نے عرض کیا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے دیکھ لو،یہ تمہارے درمیان پائیدار محبت قائم رہنے کا باعث ہے۔ حضرت مغیرہ فرماتے ہیں میں اس عورت کے گھر گیا۔اس کے والدین اس کے پاس تھے اور وہ پردہ میں تھی۔میں نے کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اسے دیکھ لوں وہ دونوں تو خاموش رہے،مگر اس لڑکی نے پردہ کو ایک جانب کر کے کہاکہ اگر تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھنے کا حکم فرمایا ہے تو مجھے دیکھ لو،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی تو مت دیکھو،چنانچہ میں نے اسے دیکھ لیا۔(ترمذی،بیہقی )۔اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھنے کے لئے ام سلیم رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا (مسند احمد وغیرہ )انہی روایات کی بنا پر ائمہ فقہاء اور محدثین کا اتفاق ہے کہ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہو اسے دیکھنا جائز ہے اور یہ دیکھنا بھی استحباب اور ندب پر مبنی ہے ضروری نہیں۔اگر معلوم ہو کہ عورت کا ولی نکاح پر راضی نہیں تو پھر اسے دیکھنا جائز نہیں۔ امام نوو ی رحمہ اللہ نے اس بارے میں بڑی مفید باتیں لکھی ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جس سے شادی کاارادہ ہو اسے دیکھنے میں عورت کی رضا ضروری نہیں۔عورت کی غفلت میں چوری چھپے بھی دیکھا جاسکتا ہے اس معاملے میں عورت کو اجازت دینے میں حیا دامن گیر ہوتی ہے اور معاملہ بھی بسا او قات یقینی نہیں ہوتا۔دیکھنے کے باوجود مرد شادی نہیں کرتا،ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ عورت کے لئے اس کا انکار اذیت اور دلی تکلیف کا باعث بنتا ہے اور اگر اسے بغیر اطلاع کے دیکھ لیا جائے اور شادی نہ کرے تو یہ اقدام عورت کے لئے پشیمانی کا سبب نہیں بنتا،اس لئے بہتر یہ ہے کہ شادی کا باقاعدہ پیغام بھیجنے سے پہلے دیکھ لیا جائے تا کہ اگر پسند نہ آئے تو بغیر کسی تکلیف و پریشانی کے معاملہ ختم ہو جائے اور اگر خود دیکھنا ممکن نہ ہو تو کس ایسی عورت کو اسے دیکھنے کیلئے بھیجا جائے جس پر اعتما د ہو تاکہ وہ آکر صحیح خبر دے اور یہ سب کام نکاح کی بات چیت کر نے سے پہلے ہو جانا چاہیے ( شرح مسلم :ص۴۵۶ج۱)امام نووی کی بات بڑی حقیقت پسند انہ ہے اور اس باب میں وارد شدہ روایات کے خلاصہ پر مبنی ہے اسلام نے میاں بیوی کے مستقبل کی بہتری کے لئے ایک دوسرے کو دیکھنے کی بس اجازت دی ہے اس میں مزید تجسس وتعمق اور پہلے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعارف و ملاقات اسلام کا نہیں مغرب کا مزاج ہے جس کا نتیجہ بھی اکثر وبیشتر غلط نکلتا ہے۔ |