کے اندر چلی جاتی ہے۔ اس لئے ایک طرف ہو کر کھڑے ہونا چاہیے۔حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے ایک سوراخ سے اند ر جھانکا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کنگھی نما کوئی لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر کے بال درست کیا کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَوْ أَعْلَمُ أَنَّکَ تَنْظُرُ طَعَنْتُ بِہٖ فِیْ عَیْنِکَإِنَّمَاجُعِلَ اْلإذْنُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ‘‘( بخاری ومسلم) ’’اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ تو دیکھ رہا ہے تو میں اسے تیری آنکھ میں دے مارتا،اجازت تو آنکھ ہی کی بنا پر طلب کی جاتی ہے۔‘‘ اگر آنکھ سے گھر کے اندر دیکھ ہی لیا تو پھر اجازت کے کیا معنی؟ بلکہ حضرت ابوھریر ۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر اجازت کسی کے گھر کے اندر دیکھے اور اہل خانہ کنکری اٹھا کر اسے دے ماریں،جس سے اس کی آنکھ زخمی ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔( بخاری ومسلم)بلکہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں ہے اہل خانہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔ اور ایک حدیث کے الفاظ ہیں : ’’مَنِ اطَّلَعَ فِیْ بَیْتِ قَوْمٍ بِغَیْرِإِذْنِھِمْ فَفَقَئُوْا عَیْنَہٗ فَلَا دِیَّۃَ لَہٗ وَلَا قِصَاصَ۔‘‘ ’’کہ جو شخص کسی کے گھر بغیر ان کی اجازت دیکھتا ہے اور وہ اس کی آنکھ پھوڑ دیتے ہیں تواس کی نہ ہی دیت ہے اور نہ قصاص۔‘‘ غور کیجئے اگر کوئی ظالم کسی کی ایک آنکھ نکال دے تو اس سے قصاص لیا جائے گا اور قصاص میں اس کی آنکھ نکا لی جائے گی یا اس سے پچاس اونٹ نصف دیت وصول کی جائے گی۔ لیکن اگر یہی آنکھ دیانت وامانت کا مظاہرہ نہیں کرتی،کسی کے گھر داخل ہو جاتی ہے تو اس کی قدر و منزلت ختم ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اگر کوئی ہاتھ ربع دینار یعنی ایک چوتھائی دینار کے برابر چوری کرے تو اسے کاٹ دینے کا حکم ہے لیکن اگر کوئی کسی کا ہاتھ ظلماً کاٹے تو اس سے نصف دیت وصول کی جائے گی۔اسلام معاشرے کو |