بوڑھا ہو گیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے پھر دعا کی کہ میری نظر بحال ہو جائے،چنانچہ اس کی نظر درست ہو گئی۔ امام یحیی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک شخص نے بتلایا کہ میں نے اسے نابینا ہونے سے پہلے بھی دیکھا اور نابینا ہونے کے بعد بڑھاپے میں صحیح نظر کی حالت میں بھی دیکھا۔ فقیہ ابو العباس محمد بن عبدالرحمن حما م میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ننگے نہا رہے ہیں،انہوں نے یہ ماجرا دیکھ کر اپنی آنکھیں بندکر لیں تو ان میں سے ایک نے کہا آپ کب سے نابینا ہو گئے ہیں ؟ انہوں نے برجستہ جواب دیا جب سے تم بے شرم ہوگئے ہو۔(شعب الایمان :ص۱۶۳ ج۶) شیخ محمد بن عمر بن الفتوح التلمسانی بڑے خوبصورت نوجوان تھے ایک روزایک خوبصورت عورت سامنے سے گزری،تو یہ اس کی طرف دیکھنے لگے اس عورت نے یہ حرکت دیکھی تو کہا: ’’اِتَّقِ اللّٰہَ یَابْنَ الْفَتُوْحِ یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْأَ عْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ ‘‘(نیل الا بتھاج علی ھامش الدیباج: ص۲۹۲) ’’اے فتوح کے بیٹے ! اللہ سے ڈرو،وہ آنکھ کی خیانت اور سینے کے بھید کو جانتا ہے ‘ ‘ کہتے ہیں کہ یہی بات ان کے زہد کا باعث بنی۔گھر کو خیرباد کہا اور علم وعمل کی زندگی اختیار کر لی،ویران مسجد کو تلاوت قرآن سے آباد کرتے ۸۱۸ ھ میں بخاری شریف پڑھ رہے تھے کہ طاعون کا حملہ ہوا اور اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔ قصہ پارینہ کو جانے دیجئے بر صغیر میں سیدین شھیدین یعنی سید احمد اور سید محمد اسماعیل رحمھماا للہ سے کون واقف نہیں ؟ احیاء سنت اور استیصال بدعت کے ساتھ ساتھ عملا جہاد اور نفاذ اسلام کے سلسلے میں ان کی مساعی جمیلہ سے کون بے خبر ہے ؟عملی زندگی کا جو صور انہوں نے پھونکا اس سے قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے لکھا ہے : ’’غازیوں کے زہد وتقوی سے ہر شخص متاثر تھا ایک مرتبہ ملا کلیم اخوند زادہ نے |