نذر ہوگا یا ردی کی ٹوکری اس کامقدر ہوگی۔ مالکان ومدیر ان اخبارات کا یہ وہ ’’جمہوری حق یا رویہ‘‘ ہےجو سالہاسال سے راقم کے تجربہ ومشاہدہ کاحصہ ہے۔ یہ جگ بیتی ہی نہیں، آپ بیتی بھی ہے جس میں ایک فیصد بھی غلط بیانی نہیں۔
بہرحال بات ہورہی تھی اس متنازعہ بلکہ مغربیت میں ڈوبے بل کی کہ اس کی حمایت میں جوچوتھا طبقہ سرگرم ہے وہ اخباری کالم نویسوں کا ہے یہ ظاہر ہے کہ یہ جرعۂ تلخ ان کے لئے کتنا بھی ناخوش گوار ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ مذکورہ تینوں حمایتوں کی طرح، یہ بھی قرآن وحدیث کے علوم سے بہرحال بہرہ ورنہیں ہے۔
دنیائے علم وتحقیق میں یہ بات مسلمہ ہے کہ سائنس، ریاضی، انجینئرنگ، طب وحکمت، معاشیات، سیاسیات، یا کسی بھی علم وفن میں کوئی کتاب یامضمون لکھنے کاحق صرف اسی کو حاصل ہے جو اس علم یا فن کاماہر ہو اور اس پر کامل عبور رکھتا ہو۔ اس کے بغیر کوئی شخص کسی بھی فن پر لکھنے کی جرأت نہیں کرتا اور اگر کوئی ایسی جسارت کرلے تو اسے کوئی قبول کرنے کے لئےتیار نہیں ہوگا بلکہ اسے دنیا احمق یا پاگل تصورکرے گی کہ ذات کی کوڑھ کرلی اور ....
لیکن دین اسلام، وہ دنیا کامظلوم ترین دین ہے کہ اس کی ابجد سے بھی ناآشنالوگ اس میں رائے زنی بلکہ اس میں ’’اجتہاد‘‘ کرنا نہ صرف اپناحق سمجھتے ہیں بلکہ جن علماء نے علوم دینیہ کے سیکھنے سکھانے میں اپنی عمر صرف کی ہیں، ان کو دینی معاملات میں رائے دینے کا اہل نہیں سمجھاجاتا۔
﴿اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ [ص:۵)
|