نہیں تو وہ متعلقہ مسئلے سے آگاہی رکھنے والوں کو ہی طعن وتشنیع کاہدف بناکر سمجھتے ہیں کہ ہم نے کالم نویسی کاحق اداکردیا ہے، یا وہ سمجھتے ہیں کہ ہرمسئلے میں ٹانگ اڑانا، یعنی رائے زنی کرنا ہمار ا بنیادی اور جمہوری حق ہے۔ اسی لئے وہ اظہار رائے کی آزادی کو جمہوریت کالازمی حصہ سمجھتے اور باور کراتے ہیں۔ لیکن جوابِ آں غزل کے طور پر جب آگاہی رکھنے والے اہل علم وتحقیق تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں تو اس کو بالعموم اخبارات میں شائع نہیں کیاجاتا۔ ان کے نزدیک آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ اظہاررائے صرف یہ ہے کہ خود ان کو لکھنے اور شائع کرنے کی اجازت ہو وہ جوچاہیں لکھیں اور شائع کریں۔ اگر وہ رات کو دن او دن کورات باور کرائیں تو ان کاحق ہے جسے سلب کرناجمہوریت کے خلاف ہے لیکن دوسرے کسی باخبر شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ لکھے یہ رات کس طرح ہوسکتی ہے جب کہ سورج کی روشنی ہر سوپھیلی ہوئی ہے اور یہ دن کس طرح ہوسکتا ہے جب کہ تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی ہے؟یہ بھی جمہوریت ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت یا آزادیٔ رائے کا حق صرف ان کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے کہ قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہے اوروہ اخبارات کےمالک، یا ان کے مستقل تنخواہ دار کالم نگار، یامشہور قلم کار ہیں !!
رہے اہل علم وتحقیق اور ارباب فکر ونظر، چونکہ بدقسمتی سے نہ وہ اخبارات کے مالک یا مدیر ہیں اور نہ اخبارات کے مستقل تنخواہ دارملازم اور کالم نگار۔ وہ چاہے آسمان علم وتحقیق کے درخشندہ ستارے ہوں، بحرعلوم دینیہ کے غواص اور ماہرہوں، اصابت فکرونظر کے حامل ہوں لیکن ان کا تحقیقی یاوضاحتی بیان ناقابل اشاعت قرارپائے گا، وہ سردخانے کی
|