Maktaba Wahhabi

302 - 347
ایک اور ضروری وضاحت یہاں ایک اور نہایت اہم نکتےکی وضاحت کردینی مناسب معلوم ہوتی ہے اور یہ کہ اکثر کتابوں میں طلاقِ سنّت کا طریقہ یہ بتلایاگیا ہےکہ ہر طہر میں رجوع کیے بغیر طلا ق دی جائے۔ اس طرح تین طہروں میں تین طلاقیں پوری کی جائیں جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تین طلاقیں دینی ضروری ہی نہیں ہیں، ایک طلاق دینے کے بعد اگر عدّت کے گزرنے (تین حیض یا تین مہینے )تک رجوع نہیں کیا جائے گاتواس سے بھی طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے، اس کے بعد عورت آزاد ہے، ولی کی اجازت سے جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے، حتیٰ کہ پہلے خاوند سے بھی صلح کی صورت میں دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔ اس کے برعکس تین طہروں میں تین طلاقوں کو پورا کرنے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس طرح پھر طلاق مغلظہ یا بتّہ واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد زوجِ اول سے نکاح ﴿حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَه﴾پر عمل کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے پھر فقہی جمودمیں مبتلا علماء لعنتی اور بے غیرتی والے حلالے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اور ہر غیر ت مند مرد اور ہر غیرت مند عورت کے لیے ناقابل ِ قبول بلکہ ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ طلاقِ سنّت کا مذکور ہ طریقہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیا ن کردہ ہے جو سنن نسائی اور ابن ماجہ میں موجود ہے، اس لیے یہ مشہور بھی ہوگیا تاہم اس کو طلاقِ سنّت قرار دینا کسی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن مسعود سے وہ طریقہ منقول ہےجسے ہم نے بہتر طریقہ قرار دیا ہےایک طلا ق دے کرچھوڑ
Flag Counter