نہیں کرتا، علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کروایا جائے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [1]
بصورت دیگر یہ گھرانہ اجڑ جاتا ہے، مرد الگ پریشان ہوتا ہے، بیوی کی زندگی بھی اجیرن ہو جاتی ہے اور بچوں کا مستقبل بھی تباہ۔ اور بعض دفعہ بچوں کو لینے دینے کے لیے عدالتی کاروائی میں دونوں میاں بیوی خوب خوار ہوتے ہیں۔ تاہم کسی ایک کے حق میں فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی بچے پریشان کن صورت حال سے دو چار رہتے ہیں، ان کو ماں کی جدائی برداشت کرنی پڑتی ہے یا باپ کی۔
فقہی جمود میں مبتلا اور بے غیرتی اور لعنتی فعل کا فتوی دینے والے علماء کے پاس اس معاشرتی مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے، البتہ شریعت اسلامیہ میں اس کا حل موجود ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کر کے رجوع کر لیا جائے جیسا کہ قرآن و حدیث کی تصریحات سے ثابت ہے۔ اس طرح ہزاروں، لاکھوں گھرانے برباد ہونے سے بچ جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے حنفی علماء بھی یہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ مذکورہ صورت حال کا ایک ہی حل ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کر کے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا اور عدت گزر جانے کی صورت میں بہ نکاحِ جدید صلح کرنے کا حق دیا جائے، بشرطیکہ طلاق دینے کا یہ فعل اس نے پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ کیا ہو۔
اس کی تفصیل راقم کی کتاب۔ ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
|