اس کی دل آزاری کا پہلو ہے جب کہ حسن معاشرت کا تقاضا اس کی دلجوئی و دلداری کرنا ہے نہ کہ دل آزاری۔
16۔ بیوی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب ایک غلام اور ما تحت شخص پر بھی اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا جائز نہیں ہے جب کہ ان کو اپنے گھروں میں رکھنے کا مقصد ہی ان سے اپنی خدمت لینا اور ان سے اپنے اندرونی و بیرونی کام کرانا ہوتا ہے تو بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا کب جائز ہوسکتا ہے۔ ؟
بلا شبہ خاوند کی خدمت اور گھریلو امور کی انجام دہی عورت کی ذمے داری ہے، لیکن مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس معاملے میں بھی حسن معاشرت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھے اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً، خاوند اس کو گھریلو اخراجات کے لیے جو رقم مہیا کرے، وہ ضروریات سے بہت کم ہو، لیکن خاوند اس کو مجبور کرے کہ وہ اسی رقم سے تمام ضروریات پوری کرے، ظاہر بات ہے بعض خاوندوں کا یہ رویہ سر اسر تحکم اور تکلیف مَالاَ یُطَاق ہی ہے۔
اسی طرح بعض گھروں میں آنے والی نئی بہو پر ضرورت سے زیادہ کاموں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جب کہ گھر میں اس کی جوان نندیں وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔ عدل و انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ سب مل جل کر گھریلو امور سر انجام دیں، ساس سسر بھی اس پہلو کو ملحوظ رکھیں، خاوند اگر اس سلسلے میں ماں باپ سے کوئی بات کرتا ہے تو اس کو زن مرید ہونے کا طعنہ دے کر خاموش رہنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ اس بے انصافی کے تین نتیجوں میں سے کوئی
|