جائے حتٰی کی تین حیض گزر جائیں۔ [1] یہی طریقہ راجح اور صحیح ہے۔
4۔ چوتھی ہدایت یہ ہے کہ پہلی طلاق یا دوسری طلاق میں بیوی سے علیحدگی تو ضروری ہے لیکن عدت کے اندر اس کو گھر ہی میں رہنے دیا جائے، یعنی خاوند کے گھر میں۔ اس سے اسے نہ نکالا جائے۔ اس کا فائدہ اللہ نے یہ بتلایا ہے کہ مطلقہ کے اسی گھر میں رہنے سے ہو سکتا ہے خاوند کے اندر رجوع کرنے کی رغبت اور جذبہ پیدا ہو جائے۔
﴿لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا ﴾ [الطلاق :1]
’ ’ تم نہیں جانتے شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ ‘‘
اسی لیے بعض مفسرین کی رائے ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک طلاق دینے کی تلقین اور بیک وقت تین طلاقیں دینے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ر
مماگر مرد ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دے (اور شریعت اسے جائز قرار دے کر نافذ بھی کر دے) تو پھر یہ کہنا بے فائدہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات (خاوند کے دل میں صلح کی رغبت) پیدا کر دے۔ [2]
عورت کو اپنا رویہ صحیح رکھنا چاہیے
یہاں تک تو بات تھی مرد کے حقِّ طلاق اور اس کے طریقۂ استعمال کی۔ اس مقام پر ہم چند باتیں خواتین سے بھی عرض کرنا مناسب بلکہ ضروری سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ مرد اکثر و بیشتر عورتوں کے رویوں کی وجہ سے طلاق دینے پر مجبور ہوتے ہیں ورنہ کسی کو بھی اپنا گھر اجاڑنا پسند نہیں۔ بنابریں عورتوں کو ہر وقت اپنا رویہ درست رکھنا چاہیے اور مرد کو اتنا
|