پریشان نہیں کرنا چاہیے کہ معاملہ طلاق تک پہنچ جائے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جائے جو نیک عورت کے اوصاف کے ضمن میں (19، 20 کے قریب) صفات اور ’’عورت نئے گھر میں، نئے ماحول میں‘‘۔ کے تحت ہم بیان کر آئے ہیں۔ علاوہ ازیں عورت مرد کو اشتعال اور غصہ دلانے والی باتوں سے گریز کرے۔ اپنی زبان پر کنٹرول رکھے، بالخصوص جب خاوند غصے میں ہو۔ بالعموم فساد زبان کی بے احتیاطی سے پیدا ہوتا اور بڑھتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے زبان کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے۔
اسی طرح جب خاوند عورت کے رویے سے تنگ آکر یہ کہتا ہے کہ میں تجھے طلاق دے دوں گا تو اکثر نادان عورتیں اپنی اصلاح کرنے کے بجائے، کہہ دیتی ہیں، اچھا طلاق دے دے اور خاوند اس کے جواب میں طلاق دے ڈالتا ہے، ظاہر بات ہے کہ یہ رویہ اپنے پیروں پر آپ ہی کلہاڑی مارنے والی بات ہے۔
بعض عورتیں اپنے خاوند کی ماں (اپنی ساس )یا اس کی بہنوں (نندوں ) کی بابت خاوند کو یہاں تک کہہ دیتی ہیں کہ ماں کو (یا بہن) کو رکھ لے یا مجھے رکھ لے، ساس یا نندوں کے ساتھ گزارا کرنے کے بجائے ان سے اتنی شدید نفرت کا اظہار بھی اکثر و بیشتر طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ ایسے رویے سے بھی بچا جائے۔
عورت کو یاد رکھنا چاہیے کہ آسمان کے نیچے زمین پر خاوند اس کے لیے سائبان کی حیثیت رکھتا ہے، اس سے اگر وہ محروم ہو گئی تو عورت کی حیثیت ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہے جس کو تندو تیز ہوائیں کسی ویرانے میں پھینک دیتی ہیں یا آوارہ لڑکوں کے ہاتھوں میں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ یا پھرعورت بھائیوں کی دست نگر بن کر ذلت و خواری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔
|