نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔ اسی لیے اس میں بھی تمام مکاتب فکر متفق ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا ناجائز ہے۔ لیکن عوام جہالت کی وجہ سے غصے میں اسلام کی اس اہم ہدایت کی پروا نہیں کرتے اور ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علمائے احناف اس کو تین ہی قرار دے کر صلح اور رجوع کا راستہ بالکل بند کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں عوام بڑے پریشان ہوتے ہیں، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہماری نیت بیوی سے جدائی کی نہیں تھی، بس غصے میں طلاق دے بیٹھے، اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ جب تک طلاق کا لفظ تین مرتبہ استعمال نہیں کریں گے تو طلاق ہی نہیں ہو گی، اسٹامپ پیپر میں بھی اسی لیے تین طلاقیں لکھوائی جاتی ہیں۔
بنابریں طلاق دینے کا اگر فیصلہ کر ہی لیا جائے تو ایک ہی طلاق دی جائے۔ اس کے بڑے فائدے ہیں کیونکہ بعض دفعہ آدمی طلاق تو دے بیٹھتا ہے لیکن جب اس کے نقصانات اس کے سامنے آتے ہیں، مثلاً: میاں بیوی میں آپس میں بڑا پیار ہے، وہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، یا اولاد کا مسئلہ ہے، طلاق کے بعد ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا وغیرہ، اس قسم کی صورتوں میں اگر وہ دوبارہ ازدواجی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو ایک طلاق کی صورت میں عدت کے اندر صلح اور رجوع کر کے اپنی غلطی کا ازالہ کر لیا جانا بڑا آسان ہے، اس کی راہ میں فقہی اختلاف بھی آڑے نہیں آتا۔ اس کے برعکس اکٹھی تین طلاقیں دینے کی صورت میں فقہی اختلاف کی وجہ سے معاملہ گمبھیر ہو جاتا ہے کیونکہ حنفی علماء اس صورت میں صلح کی اجازت نہیں دیتے۔ پھر یا تو وہ حلالہ کروا کے دوبارہ نکاح کی بحالی کافتوی دیتے ہیں جو ایک لعنتی اور بے غیرتی کا کام ہے، جسے کوئی غیرت مند مرد گوارا
|