Maktaba Wahhabi

299 - 347
ہو، جیسا کہ حکم ہے تو اس انتظار کی وجہ سے اکثر و بیشتر غصے اور اشتعال کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے اور آدمی کو طلاق دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اور یوں طلاق کی شرح بہت ہی گھٹ جاتی ہے۔ پھر طلاق صرف اسی صورت میں دی جائے گی جب مرد نے قطعی طور پر، اصلاح کی ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد، طلاق دینے ہی کا فیصلہ کر لیا ہو گا۔ 3۔ جب طلاق دی جائے تو ایک ہی طلاق دی جائے، یعنی طلاق کا لفظ صرف ایک مرتبہ ہی استعمال کیا جائے، میں تجھے طلاق دیتا ہوں، یا تجھے طلاق ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر طلاق دینے کے بعد صلح کی صورت بن جائے تو نہایت آسانی سے صلح کا مرحلہ طے ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک طلاق کی صورت میں تمام مکاتب فکر کے نزدیک عدت (تین حیض یا تین مہینے) کے اندر بغیر نکاح کے رجوع اور صلح کر لینا جائز ہے اور رجوع کے لیے زبان ہی سے رجوع کا اظہار کر دینا کافی ہے، اس کے لیے کسی خاص عمل کا کرنا ضروری نہیں ہے اور اگر عدّت گزر جائے تو ان کے درمیان دوبارہ نکاح کے ذریعے سے تعلق بحال ہو جاتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ رجوع کرنے کے بعد دوبارہ بھی ایک طلاق دینے کی صورت میں کی صورت میں عدّت کے اندر رجوع کرنے کی اور عدّت گزر جانے پر نئے نکاح کے ذریعے سےتعلق بحال کرنے کا موقع رہتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ (البقرة:229)میں دو مرتبہ طلاق دے کر مرد کو رجوع کرنے کا حق دیا ہے۔ پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک ہی مرتبہ طلاق، طلاق، طلاق کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے حالانکہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا ممنوع ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter