کےساتھ ڈانس کرے اور ہر وہ کام کرے جو اسلام میں اس کےلئے ناپسندیدہ ہے، لیکن مغربی تہذیب میں پسندیدہ ہے۔ جیسے بے پردگی، نامحرم مردوں کے ساتھ بے باکانہ اختلاط، مردوں کے ساتھ دوستی اور ان کے ساتھ سیرسپاٹا وغیرہ۔
یہ خواتین اس بل کی حمایت کیوں نہیں کریں گی۔ اس بل نے تو ان کی آرزؤں اورمقاصد کے ہفت خواں کو ایک ہی جست میں طے کرادیا ہے۔ اگرخدانخواستہ بل واقعی نافذ ہوگیا تو پاکستان میں بھی مغرب کی طرح خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکاراو ر عورت یکسر غیرمحفوظ ہوجائے گی۔ اس مقصد کے حصول میں مغرب اپنی ایجنٹ خواتین کے ہزار جتن کے باوجود، ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ لیکن حکومت پنجاب مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے جس طرح پہلی جماعت ہی سے انگریزی مسلط کرکے مغرب کے طوق غلامی کو ہر مسلمان بچے کے زیب گلو کردیا ہے۔ اب مسلمان عورت کے لئے وہ نظام بھی تجویز کردیا ہے جس سے چند سالوں میں نہایت تیزی سے وہ خاندانی حصار اور تحفظ، جو پاکستانی عورت کو بہت حد تک حاصل ہے، ختم ہوجائے گا اور پاکستانی عورت بھی مغرب کی طرح خاندانی حصارسے آزاد، مرد کی بالادستی، جو اس کی حفاظت کاضامن ہے، سے محفوظ اور کٹی پتنگ کی طرح آوارہ منشوں اور ہوس کاروں کی مرکزنگاہ ہوگی۔ لاقدرہ اللّٰہ، ثم لاقدرہ اللّٰہ
اس بل کی حمایت کرنے والا چوتھا طبقہ، روزنامہ اخبارات کے ان کالم نگاروں پر مشتمل ہے جو ہر نئے پیش آمدہ مسئلے میں کالم نگاری ضروری سمجھتے ہیں چاہے وہ اس موضوع کی اہمیت، تقاضوں اور اس کی ضروری اہلیت سے کوئی بھی آگاہی نہ رکھتے ہوں۔ کچھ اور
|