اسی طرح دوران قتال اہل عدل نے اہل بغاوت کے جن اموال کو برباد کیا وہ اس کا تاوان نہ دیں گے۔[1] اسی طرح بقول امام نووی علماء کے صحیح ترین اقوال کی روشنی میں اگر اہل بغاوت نے دوران قتال اہل عدل کا جانی و مالی نقصان کیا ہے تو وہ اس کا تاوان نہیں دیں گے۔[2] اس کی دلیل وہ اجماع صحابہ ہے جو زہری کی سند سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں : پہلا فتنہ پھوٹ پڑا اور اصحاب رسول موجود تھے، ان میں بدری صحابہ بھی تھے وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ قرآن میں تاویل کی بنا پر باہمی قتل و خون ریزی کی وجہ سے کسی سے قصاص نہ لیا جائے اور نہ کسی کا مال چھینا جائے۔[3]
’’ عبدالرزاق‘‘ کی روایت میں ہے کہ پہلا فتنہ پھوٹ پڑا اور بدر میں شریک ہونے والے اصحاب رسول بہت تعداد میں موجود تھے، سب اس بات پر متفق تھے کہ تاویل قرآن کی بنا پر کسی خاتون کو قیدی بنانے اور اس کی شرم گاہ حلال کرلینے والوں پر وہ کوئی حد نافذ نہ کریں اور اسی بنا پر کسی کا خون حلال کرنے والوں سے قصاص نہ لیں اور اسی بنیاد پر دوسروں کا مال حلال کرلینے والوں سے مال واپس نہ لیں ، ہاں اگر کوئی چیز ایسی ہو جس کا مالک معلوم ہو تو اسے اس تک واپس کردیا جائے۔[4]
خوارج کے چند اہم اوصاف
فرقۂ خوارج کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اس فرقہ کے لوگوں کو چند اہم اوصاف و عادات سے متصف پائے گا وہ اوصاف یہ ہیں :
٭ دین میں غلو
٭ دین سے ناواقفیت
٭ امام المسلمین کی اطاعت سے بغاوت۔
٭ مرتکبین گناہ کی تکفیر اور مسلمانوں کی جان و مال کو حلال ٹھہرانا۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ناقابل عفو گستاخی یعنی آپ کو ظالم ٹھہرانا۔
٭ طعن و تشنیع
٭ بدگمانی
٭ مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی۔
|