Maktaba Wahhabi

344 - 757
۳: سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تواضع اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایثار: الف: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کي عظیم تواضع:…واقعہ ٔشہادت میں آپ کی تواضع کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے جان کنی کے وقت اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ام المومنین عائشہ کے پاس جاؤ اور کہو: عمر آپ کو سلام کہتا ہے، یہ نہ کہنا کہ امیرالمومنین آپ کو سلام کہتے ہیں ، اس لیے کہ اس وقت میں مومنوں کا امیر نہیں ہوں ۔[1] اسی طرح جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت دے دی تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے چلنا، پھر (باہر سے) ان (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگ رہا ہے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے حجرئہ نبویہ میں قبر میں اتارنا، ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں مجھے دفن کر دینا۔[2] اللہ کی کروڑ بار رحمتیں نازل ہوں عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر۔ اللہ ہمیں انہیں جیسا اخلاق وکردار اور تواضع عطا فرمائے اور اپنے متقی ومتواضع بندوں کو جس اجر و ثواب سے نوازے گا اس سے بہتر اجر و ثواب سے انہیں نواز دے۔ ’’اِنَّ رَبِّی قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ‘‘[3] ب: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایثار عظیم:…سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایثار عظیم کی دلیل یہ ہے کہ ان کی دلی تمنا تھی کہ اپنے شوہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو اور اپنے والد محترم کے پاس دفن ہوں ، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے التجا کی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور اپنی ذات پر ان کو ترجیح دی اور کہا: میں اسے اپنے لیے چاہتی تھی لیکن آج میں عمر کے مطالبہ کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں ۔[4] ۴: بستر مرگ پر بھی بھلائی کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے رہے: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ موت کے آلام و شدائد کو جھیلتے ہوئے بھی فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے غافل نہ ہوئے۔ جب آپ پر حملہ ہوا تو آپ کی تعزیت میں اور آپ کو تسلی دینے کے لیے ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور کہا: اے امیرالمومنین! بشارت قبول فرمایے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی، پہلے اسلام لائے، پھر آپ حاکم بنائے گئے تو عدل وانصاف سے کام لیا اور اب شہادت کی موت مر رہے ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: میں چاہتا ہوں کہ برابر برابر چھوٹ جاؤں ، نہ مجھ پر کسی کا حق نکلے نہ میرا کسی پر۔ پھر وہ نوجوان واپس جانے لگا تو آپ نے دیکھا کہ اس کی ازار زمین پر گھسٹ رہی ہے۔ آپ نے کہا: اس نوجوان کو میرے پاس بلاؤ، وہ آیا تو آپ نے کہا: اے میرے عزیز! اپنی ازار اوپر کر لو، اس سے تمہارا کپڑا صاف اور تمہارا رب خوش رہے گا۔[5] اس
Flag Counter