نے ہم کو تکلیف دی ہے، ستایا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ ہمارے لیے کشادگی پیدا کردے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ آپ لوگوں کا ساتھی ہو۔ میں نے اس وقت آپ کی طرف سے ایسی رقت ونرمی دیکھی جو کبھی نہ دیکھی تھی۔ چنانچہ جب عامر بن ربیعہ تشریف لائے جو اپنی کسی ضرورت کے لیے باہر گئے ہوئے تھے، اور میں نے ان سے واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: لگتا ہے کہ تم عمر کے اسلام کی امید رکھتی ہو؟ میں نے کہا: ہاں ۔ انہوں نے کہا: وہ اس وقت تک اسلام نہیں لاسکتے جب تک خطاب کا گدھا اسلام نہ لے آئے۔ (یعنی یہ ناممکن ہے۔) [1]
عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے عزم ویقین کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے، اور احساس کیا کہ ان کا سینہ تنگ ہے۔ اس نئے دین کے ماننے والے اتنی زبردست مشکلات ومصائب کا سامنا کر رہے ہیں پھر بھی وہ اس پر جمے ہوئے ہیں ۔ آخر اس ناقابل تسخیر قوت کا راز کیا ہے؟ آپ غمگین ہوئے اور دل کو ایک چرکا لگا۔ [2] اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے آپ اسلام لے آئے، دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی آپ کے قبول اسلام کا بنیادی سبب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی:
(( اللہم أعز الاسلام بأحب الرجلین إلیک: بأبی جہل بن ہشام أو بعمر بن الخطاب۔))
’’اے اللہ! ابوجہل بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعہ سے اسلام کو غالب کردے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ کے نزدیک ان دونوں میں سے عمر زیادہ پسندیدہ تھے۔‘‘ [3]
آپ کے قبول اسلام کے بارے میں بہت سی روایتیں وارد ہیں ، لیکن فن حدیث کے معیار کے مطابق ان کی اسناد کی تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر صحیح نہیں ہیں ۔ [4] تاہم سیرت وتاریخ کی کتابوں میں مذکور روایات کے مطابق آپ کے قبولِ اسلام اور اس کے اعلان کو درج ذیل عناوین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ:
قریش کے لوگ اکٹھے ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں مشورہ کیا، انہوں نے کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کون قتل کرے گا؟ عمر بن خطاب نے کہا: میں یہ کام کروں گا۔ انہوں نے کہا: اے عمر! تمہی اس کے لیے موزوں ہو۔
|