چکا ہے تو بعض صحابہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیے بغیر دفاع کا عزم کر لیا اور بعض حضرات قتال کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی انہی میں سے تھے۔ آپ تلوار لٹکائے، زرہ پہنے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ گھر میں تھے تاکہ آپ کے دفاع میں قتال کریں لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے اس خوف سے گھر سے نکل جانے کا حکم دیا کہ کہیں باغیوں کے ساتھ قتال نہ کر بیٹھیں اور پھر قتل کر دیے جائیں ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دوبارہ پھر تلوار لٹکائے اور زرہ پہنے حاضر ہوئے۔[1]
۶۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :
جناب ابوہریرہ، عثمان رضی اللہ عنہما کے پاس یہ کہتے ہوئے حاضر ہوئے اے امیر المومنین! قتال اچھا ہے۔ ان سے عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا تمھیں یہ پسند ہے کہ تم تمام لوگوں کو اور مجھے بھی قتل کر دو؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم نے ایک شخص کو بھی قتل کیا تو گویا تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔ یہ سن کر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ واپس ہو گئے اور قتال نہ کیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تلوار لٹکائے ہوئے رہے یہاں تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کر دیا[2]2 (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت عثمان: ۴۷۵)
۷۔بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ پہنچانے کی پیش کش:
جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں کے ساتھ عدم قتال کے موقف پر مصر ہیں اور باغی آپ کو قتل کرنے پر مصر ہیں تو ان کے سامنے آپ کی حمایت کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ انہوں نے آپ سے اس بات کی پیش کش کی کہ وہ مکہ روانہ ہو جائیں اور یہ لوگ اس سلسلہ میں آپ سے پورا تعاون کریں گے، چنانچہ عبداللہ بن زبیر، مغیرہ بن شعبہ، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے سلسلہ میں مروی ہے کہ ان حضرات نے الگ الگ یہ پیش کش آپ کے سامنے رکھی، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سب کی پیش کش کو رد کر دیا۔[3]
امہات المومنین اور بعض صحابیات کا موقف
۱۔ ام المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما :
ان واقعات کے اندر ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا موقف، پر خطر مواقف میں سے تھا، اس قدر پر خطر تھا کہ قریب تھا کہ آپ کو قتل کر دیا جاتا چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر لیا گیا اور آپ پر پانی بند کر دیا گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے پڑوسی عمرو بن حزم انصاریؓ کے بیٹے کو علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ ان لوگوں نے ہم پر پانی بند کر دیا ہے اگر آپ لوگ پانی بھیج سکتے ہیں تو بھیجیں اور اسی طرح آپ نے طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما اور ام المومنین عائشہ اور دیگر ازواج
|