ایسے دور رہے جیسے صاف کپڑا میل سے دور رہتا ہے، پھر ان سے قریب ہوئے تو انہیں بھیڑ کی طرح ذبح کر دیا۔
مسروق نے کہا: یہ آپ کا کام ہے آپ نے لوگوں کے نام خطوط لکھ کر خروج کرنے کا حکم دیا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نہیں اس ذات کی قسم جس پر مومن ایمان رکھتے ہیں اور جس کے ساتھ کافر کفر کرتے ہیں ، اب تک میں نے کوئی تحریر نہیں لکھی ہے۔[1]
سبائیوں کی کذب بیانی اس سے قبل گزر چکی ہے کہ صوبوں کے لوگوں کے نام جعلی خطوط ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے روانہ کرتے تھے۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ :
علی رضی اللہ عنہ اور آل بیت آپ کی تعظیم کرتے اور ان کے حق کے معترف تھے۔
٭ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے والے سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ تھے۔[2] قیس بن عباد سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو علی رضی اللہ عنہ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا: آپ وہ شخص ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((الا استحی ممن تستحی منہ الملائکۃ۔))[3]
’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں ۔ ‘‘
٭ آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے کی شہادت دی۔ نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: وہ تو ملاء اعلیٰ میں ذوالنورین کے نام سے پکارے جاتے ہیں ۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے آپ کی زوجیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے جنت میں گھر کی ضمانت دی۔[4]
٭ آپ عثمان رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے معترف اور آپ کے اطاعت گزار تھے، آپ کے کسی امر کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے محمد بن حنفیہ کے واسطے سے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں : اگر عثمان وادی ضرار جانے کا مجھے حکم دیں تو میں آپ کی بات سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔[5] اس میں عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت و اتباع کی انتہا کی دلیل ہے۔[6]
|