قاضی کا کام کرتے۔ [1] (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، ص: ۴۵۲ تا ۴۷۷)
(۳)…چند جرائم وبدعنوانیوں کے بارے میں
سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قانونی سزائیں
۱: ایک آدمی کوفہ میں اسلامی بیت المال سے چوری کرتا ہے:
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے عمر رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کی سزا کے بارے میں دریافت کیا جس نے بیت المال سے چوری کی ہو تو آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو اس مال میں ہر ایک کا حق ہے۔ [2] اور اسے تعزیری کوڑے لگوائے۔ [3]
۲: پاگل زانیہ عورت:
عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک پاگل عورت لائی گئی جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں لوگوں سے مشورہ لیا اور اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا۔ ادھر سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو کہا: اسے واپس لے جاؤ اور پھر آپ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہ ’’مرفوع القلم‘‘ میں سے ہے، اور پھر اس سلسلے کی پوری حدیث سنائی۔ [4] آخر میں عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں ، یہ ضرور ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر یہ کیوں رجم کی جا رہی ہے؟ چنانچہ آپ نے اسے چھوڑ دیا [5] اور اللہ اکبر کہنے لگے۔ [6]
۳: ایک ذمی نے مسلمان عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا:
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیاتو آپ نے اسے پھانسی دی، اس لیے کہ اس نے شروط ومعاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی۔ [7]
۴: مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ’’زنا‘‘ کے معاملہ میں متہم ہونا:
چنانچہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے خلاف تین آدمیوں نے شہادت دی اور چوتھے نے انکار کردیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: شکر ہے اللہ ربّ العالمین کا کہ اس نے شیطان کو اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنسنے کا موقع نہ دیا۔ [8] پھر آپ نے
|