ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملائے گئے، اور عثمان رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ سے ملائے گئے۔‘‘
۲:…ترمذی نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یا عثمان إنہ لعل اللّٰه یُقَمِّصُک قمیصا فإن ارادوک علی خلعہ فلا تخلعہ لہم۔))[1]
’’اے عثمان! امید ہے اللہ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا پس اگر لوگ تم سے اس قمیص کو اتروانا چاہیں تو اس قمیص کو ان کی وجہ سے مت اتارنا۔‘‘
۶۔عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسی طرح ان کے بعد ان کے نقش قدم پر چلنے والے اہل سنت و الجماعت کا اس باب پر اجماع ہے کہ عثمان بن عفان، عمر رضی اللہ عنہما کے بعد خلافت نبوت کے سب سے زیادہ مستحق تھے، کسی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ سب نے اس کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ آپ شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد مطلقاً سب سے افضل ہیں ۔ عثمان کی عمر رضی اللہ عنہما کے بعد احقیت خلافت پر اجماع بہت سے علمائے حدیث وغیرہم نے نقل کیا ہے۔[2]
۱۔ ابن ابی شیبہ نے حارثہ بن مضرب سے روایت کی ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں حج کیا تو لوگوں کو دیکھا کہ انہیں اس سلسلہ میں کوئی شک نہیں تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ہونے والے خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔[3]
۲۔ ابو نعیم اصفہانی نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا تھا، میرے گھٹنے عمر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے سے لگ رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے لوگ کس کو امیر بنائیں گے؟ آپ نے فرمایا: لوگوں نے اپنا معاملہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حوالے کر رکھا ہے۔[4]
۳۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے شریک بن عبداللہ القاضی سے روایت نقل کی ہے، فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا، اگر وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ افضل کسی کو سمجھ رہے ہوتے تو گویا انہوں نے دھوکا دیا۔ پھر ابوبکر نے عمر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ مقرر کیا انہوں نے عدل و حق کو لوگوں میں نافذ کیا، پھر جب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے لگے تو چھ افراد پر مشتمل شوریٰ بنا دی، وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جمع ہو گئے، اگر وہ عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ افضل کسی کو سمجھتے ہوتے تو گویا انہوں نے ہم کو دھوکا دیا۔[5]
|