مکمل عمل رہا:
﴿ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴾ (آل عمران: ۱۷۳)
’’وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لیے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کا ایمان اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔‘‘
عثمان رضی اللہ عنہ قوی ایمان، اعلیٰ ظرف، موثر بصیرت اور عظیم صبر کے مالک تھے، اور اسی وجہ سے آپ نے امت کی خاطر اپنی جان قربان کر دی، جو مسلمانوں کے نزدیک آپ کے عظیم ترین فضائل میں شمار ہوا۔[1]
عبادت:
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ بڑے ہی عبادت گزار تھے۔ مروی ہے کہ آپ نے حج کے ایام میں حجر اسود کے پاس ایک رکعت میں قرآن ختم کر دیا اور یہ آپ کی عادت تھی۔[2]
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اس آیت کریمہ:
﴿ أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ﴾ (الزمر: ۹)
’’بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں ) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو۔‘‘
کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔[3]
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کریمہ:
﴿ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ (النحل: ۷۶)
’’کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ پر، برابر ہو سکتے ہیں ؟‘‘
کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مقصود عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘ [4]
|