۳۔ ان دونوں نے صرف عثمان رضی اللہ عنہ کے باغیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور علی رضی اللہ عنہ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور نہ ہی معرکۂ جمل میں علی اور ان کے ساتھیوں سے قصداً لڑائی لڑی۔[1] جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ معرکۂ صفین میں علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ محاذ آرائی پر مصر رہے۔ [2]
۴۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے معاملے میں ان دونوں نے علی رضی اللہ عنہ کو نرمی کرنے یا قاتلین کو مہلت دینے سے کبھی متہم نہیں کیا جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے آپ کو اس بات سے متہم کیا۔ [3]
فتنہ سے کنارہ کش رہنے والوں کا موقف:
فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے کنارہ کش رہنے والے بیشتر صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث تھی:
(( سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، اَلْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِيْ وَالْمَاشِيْ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِيْ مَنْ تَشَرَّفَ لَہَا تَسْتَشْرِفُہُ فَمَنْ وَجَدَ مِنْہَا مَلْجَأً أَوْ مُعَاذاً فَلْیَعُذْبِہِ۔)) [4]
’’عنقریب ایسے فتنے برپا ہوں گے جن میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا ان میں چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا ان میں دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، جو دور سے ان کی طرف جھانک کر بھی دیکھے گا تو وہ ان کو بھی سمیٹ لیں گے، اس وقت جب کسی کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یابچاؤ کا مقام مل سکے وہ اس میں چلاجائے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس حدیث میں فتنے سے ڈرایاگیا ہے اور اس میں حصہ لینے سے دور رہنے پر ابھارا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جس قدر اس میں حصہ لیا جائے گا اسی مقدار میں اس کی برائی اثر انداز ہوگی۔‘‘ [5]
اور ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یُوْشَکُ أَنْ یَّکُوْنَ خَیْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِہِا شَعْفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطَرِ یَفِرُّبِدِیْنِہِ مِنَ الْفِتَنِ۔)) [6]
|